گلشن کا کاروبار بھی عجب ہے، ہر حال میں جاری و ساری رہتا ہے ۔ کبھی کوئی ہستی یہ خیال کر بیٹھتی ہے کہ میرے بغیر گلشن کا کاروبار نہیں چل پائے گا
شہزاد اعظم
گلشن کا کاروبار بھی عجب ہے، ہر حال میں جاری و ساری رہتا ہے ۔ کبھی کوئی ہستی یہ خیال کر بیٹھتی ہے کہ میرے بغیر گلشن کا کاروبار نہیں چل پائے گا ۔ میں نہیں ہوں گی تو کسی کی کائنات کے تمام رنگ پھیکے پڑ جائیں گے، وہ ہنسنا چاہیں گے مگر مسکرا نہیں پائیں گے، وہ صبح کو گھر سے نکلیں گے تو رات گئے واپس آئیں گے۔وہ ہستی سوچتی ہے کہ جب میں نہیں ہوں گی تو ان کے قدم چلتے چلتے رُک جائیں گے، وہ ہجر کے حزنیہ نغمے گنگنائیں گے، اپنے آپ کو دنیا میں تنہاپائیں گے مگر جب وہ ہستی اچانک اپنے خیالات سے حقیقی دنیا میں واپس لوٹتی ہے تو اسے حیرتناک مایوسی ہوتی ہے کہ اس کے بغیر کائنات کے رنگ مزید گہرے اور شوخ ہو چکے ہیں،وہ جن کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ مسکرانا بھی بھول گئے ہوں گے، وہ منہ پھاڑ کر قہقہے لگاتے نظر آتے ہیں، وہ صبح کو گھر سے نکلتے ہی نہیںبلکہ 12بجے تک پڑے سوتے رہتے ہیں۔ اسی طرح چلتے چلتے قدم رُکنے ،حزنیہ نغمے گنگنانے کا خیال بھی جاہلانہ ثابت ہوتا ہے کیونکہ موصوف تو کسی اطالوی رقاص کی طرح اپنے جوتوں کی ایڑیوں سے ڈھولک کی تھاپ کی نقالی کرتے ہوئے طربیہ نغمے گاتے ،ادھراُدھرمنڈلاتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ دیکھ کر اسے ناصر کاظمی کی سوچ کی صداقت کا یقین ہو جاتا ہے جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ:
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے، کوئی ہم سا ہوگا
ہوا یوں کہ ہمارے ایک انتہائی پسندیدہ اور حقیقی اولیں عمزاد یعنی ”فرسٹ کزن“ تھے۔ وہ ہم سے اور ہم ان سے بہت دُلار کرتے تھے۔ہم نے ان کی شادی میں بھی شرکت کی۔ پھرہمارے عمزاد ایک بیٹے کی ولادت کے باعث ”صاحبِ اولاد“ ہوگئے۔کچھ عرصہ مزید گزرا تو عمزاد کے ہاں ایک اور مرد پیدا ہو گیا۔ اس گھرانے کی کل آبادی 3مردوں اور ایک خاتون کے باعث 4تک پہنچ چکی تھی۔ اسی دوران ہم بیرون ملک چلے آئے۔ہمیں ا پنے عمزاد کے حالاتِ زندگی کے بارے میں ”اپ ڈیٹس“ ملنا بھی بند ہوگئیں۔ہمیں یوں لگنے لگا جیسے دنیا رُک سی گئی ہے۔ نہ کزن ہمیں گھاس ڈالتے تھے اور نہ ہم کزن کو پوچھتے تھے۔وقت گزرتا رہا۔ایک روز ای میل پر دعوت نامہ آیا جس میں عمزاد نے اپنے بڑے صاحبزادے کی شادی میں ہماری شرکت کو ناگزیر قرار دیا تھا۔ہم نے شرکت نہیں کی۔ کچھ عرصے کے بعد اطلاع ملی کہ ہمارے عمزاد دنیا سے رخصت ہوگئے۔ یوں رہا سہا ”ای میل ربط“ بھی نابود ہو گیا۔
آجکل ہم وطن میں ہیں۔ 3روز قبل ہمیں ہمارے عمزاد کے گھرانے سے فون آیا کہ آپ ہمارے پاپا کی” پسندیدہ اشیائ“میں شامل رہے ہیں۔ فی الوقت آپ ہمارے شہر میں موجود ہیں، ہمیں ملنے کے لئے وقت عطا فرما دیجئے۔ ہم نے ”اخلاقاً“ کہہ دیا کہ وقت ہی وقت ہے ، تشریف لے آئیے۔انہوں نے ہماری بات کو دل و جان سے تسلیم کر لیا اور نصف گھنٹے کے بعد ہمارے عمزادے کے صاحبزادے اپنی والدہ،اہلیہ اور بچوں کے ساتھ ملنے پہنچ گئے۔ان کی آمد کے ساتھ ہی گھر بھر کی روشنیاں گل ہوگئیں کیونکہ نئے انداز کی لوڈ شیڈنگ شروع ہو چکی تھی۔ پہلے ہر گھنٹے کے بعد ایک گھنٹے کےلئے بجلی غائب ہو رہی تھی تاہم نئے انداز کے تحت ہر گھنٹے کے بعد بجلی کے غیاب کا دورانیہ 2گھنٹے تک بڑھا دیا گیا تھا۔ہم نے دل ہی دل میں واپڈا کو یہ سوچ کر شاباش دی کہ مہمان اندھیرے سے گھبرا کر جلد واپسی کی راہ لیں گے مگر....
ہم نے اخلاقاً دریافت کیا کہ ٹھنڈا چلے گا، گرم یا کھانا۔یہ کہہ کر ہم اپنے بھتیجے کا منہ دیکھنے لگے کہ اب وہ کہے گا کہ انکل،تکلف نہ کیجئے ، بس پانی پلا دیجئے مگر یہ ہماری خام خیالی ہی ثابت ہوئی۔ ہمارے ساتھ تو وہ کچھ ہوا کہ جس کا سبق ہم اپنی آئندہ نسل کو پڑھانا چاہیں گے۔ہمارے بھتیجے کے ڈیڑھ سالہ توتلے صاحبزادے نے اپنی ماں سے کہا کہ ”مام! یہ مجھے ڈِسائڈ کرنے دیں۔یہ بتا دیں کہ یہ اولڈ مین میرے کیا لگتے ہیں؟ ماں نے کہا کہ آپ کے پاپا کے انکل ہیں، یہ سن کر وہ ہمارے سامنے آیا اور انتہائی مدبرانہ انداز میں دونوں ہاتھ پشت پر باندھ کر تاکید کے انداز میں سر ہلا ہلا کر ہم سے کہنے لگا”دادو! ہم سب رائس کے ساتھ بروسٹ کھانے کے موڈ میں ہیں۔ بیٹر یہ ہوگا کہ آپ سجی منگوا لیں اور رائس الگ سے زیادہ لے لیں۔اس کے ساتھ کوئی نہ کوئی کولا ضرور منگوائیے گا کیونکہ میں کولا کے بغیر بروسٹ نہیں کھا سکتا۔ہم انگشتِ حیرت اپنے منہ میں دبائے اپنے بھائی کو لے کر سجی خریدنے پہنچ گئے۔ ہزاروں کی مرغی،چاول، سلاد اور کولا لے کر ہم گھر لوٹے۔ لو ڈ شیڈنگ مسلسل جاری تھی۔ کھلے صحن میں زیر آسماں چندا کی روشنی میں کھانے کے برتن سجائے جا رہے تھے ۔ وہ توتلا پھر ہمارے پاس آیا اور بولا کہ دادو! یہ ”مون لائٹ ڈنر“ ویسے آپ کو یاد رہے گا۔اس کے ساتھ ہی اس نے میز پر سے خالی گلاس اٹھایا اور ہماری جانب بڑھاتے ہوئے کہا کہ اس میں ذرا کولا انڈیل دیں۔ میں نے مما اور پاپا سے کافی ضد کی کہ مجھ کولا دے دیں مگر انہوں نے توجہ نہیں دی۔ آپ مجھے کولا دے دیں۔ ہم نے کہا کہ میاں پوتے، خالی پیٹ کولا پئیں گے تو کھانا کیا کھائیں گے؟ اس نے کہا کہ پیٹ میرا ہے ،آپ فکر نہ کریں،کولا میرے لئے ایپی ٹائزر ہے ۔ہم نے آدھا گلاس اسے دے دیا۔ اس نے غٹا غٹ پی کر پھر ہمارے سامنے گلاس رکھ کر کہا کہ دادو اسے پورا بھر دیں۔ہم نے پورا بھر دیا۔ اس نے غٹا غٹ حلق سے اتارااور کہنے لگا کہ دادو ایک گلاس اوربھر دیں۔ ہم نے کہا کہ پوتو، دادو کی بات مان لو، پہلے کھا لو، اس نے کہا کہ بروسٹ کے ساتھ پینے کےلئے ہی تو گلاس بھروارہا ہوں۔ہم نے مہمانوں کے ساتھ کھانا نہیں کھایا کیونکہ ہمیں ڈر تھا کہ کم پڑ جائے گا ۔ہمارے پوتو میاں مسلسل کولا پیتے رہے اور ہم سے گلاس بھرواتے رہے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ ہمارے سینے پر مونگ دل رہا ہے۔ حد یہ ہوئی کہ وہ بھاری بھرکم ”خاندانی جسامت“ یعنی ”فیملی سائز“ کی کولا بوتل خالی ہوگئی اور اُس ”پوتو“ نے بوتل اُلٹی کر کے جھٹکتے ہوئے کہا کہ دادو! یہ فنش ہوگئی اب ایسا کریں کہ بھائی کے ساتھ جا کر ایک کولا اور لے آئیں میں کھانے کے بعد بھی پیتا ہوں۔ہمیں حیرت اس بات کی ہوئی کہ ان کی والدہ فرمانے لگیں کہ ”دادو! میرا بیٹا کولا پینے کا عادی ہے، ہو سکے تو اسے لا دیں کیونکہ یہ اپنے باپ کے پیسوں سے نہیں بلکہ دوسروں کے پیسوں سے ہی” کولا بازی“ کا عادی ہے۔اسی دوران پوتو بولا”دادو! آپ باتوں میں ٹائم ویسٹ نہ کریں، فٹا فٹ کولا لا دیں، رات کا ایک بج رہا ہے، صبح اسکول بھی جانا ہے۔ہم حیران تھے کہ نہ ماں ایسی، نہ باپ ایسا، یہ بیٹا کس پر ہو گیا۔ ہم نے یہی سوال اپنے کزن کے صاحبزادے سے کیا تو اس نے جواب دیا انکل! در اصل اس کی پیدائش ”آف شور“ ہوئی تھی۔ یہ اُن دِنوں کی بات ہے جب میںاپنی بیگم کے ساتھ ”پانامہ“ میں مقیم تھا۔یہ سن کر ہم نے کہا کہ اُس ”پوتو“ کا کوئی قصور نہیں، قصور تو ماں باپ کا ہے جنہوں نے اپنی نسل کو ”آف شور“پیدائش سے بچانے کی کوشش نہیں کی۔
٭٭٭٭٭٭