Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
منگل ، 29 جولائی ، 2025 | Tuesday , July   29, 2025
منگل ، 29 جولائی ، 2025 | Tuesday , July   29, 2025

مہر سکوت

جاوید اقبال
ہالینڈ کے چھوٹے سے قصبے کیوکنہاف کی میلوں پر پھیلی عریض کیاریوں میں سنبل، نرگس اور گلِ لالہ ہر برس کے موسم بہار میں فضا کو معطر کرتے ہیں۔ مارچ کے اواخر میں جب ہر رنگ کے غنچے بند مٹھی کی طرح جو بن کو پہنچتے ہیں تو رنگ ، نوراور مہک کا سیلاب قصبے اورنو اح کو نہلا دیتا ہے۔ 8 لاکھ پھول پتلے دبلے تنوں پر اپنے وجود سنبھالے 2ہفتوں کیلئے اپنا شباب اوڑھتے ہیں۔ کیو کنہاف ایک ولندیزی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ”باورچی خانے کا باغ“ ۔
یورپ کے اس جمیل ترین باغ کی تاریخ بھی بڑی دلچسپ ہے۔16 ویں صدی میں اس قصبے کی ملکہ گرٹروڈ نے اپنے قلعہ کے اردگرد تقریباً32ہیکٹر علاقے پر مشتمل رقبہ سبزیوںاو رپھولوں کیلئے مختص کیا اور اس کا نام” کیو کنہاف“ رکھا۔ یوں وقت گزرتا رہا اور اس میں اگائی سبزیاں اسکے باورچی خانے کے مصارف چلاتی رہیں۔
1857ءمیںاس قلعے کی تعمیرِ نو ہوئی۔ 1949ءمیں گلِ لالہ کے 20ماہرین نے ان پھولوں کی افزائش کےلئے علاقے کو مناسب سمجھا اور پہلی نمائشِ گل کا انعقاد کیا۔ اس پہلے میلے میں 2لاکھ36ہزار زائرین نے شرکت کی۔ رفتہ رفتہ نمائش نے یورپ کے سب سے بڑے میلے کی شکل اختیار کرلی۔ آج اس 8ہفتوں کیلئے انعقاد پذیر ہونے والی نمائش میں 80 لاکھ کے قریب پھول اپنی بہار دکھاتے ہیں۔ گزشتہ برس 10لاکھ زائرین وہاں تھے۔ اس برس 23مارچ کو اسکا آغاز ہوا تھا۔ 21مئی کو کیو کنہاف کے 32ہیکٹر پر پھیلے کئی سو کھیت رنگ وبو کا شاہکار ہوتے ہیں۔ 
نمائش کو باقاعدہ انتہائی منظم طریقے سے منعقد کیا جاتا ہے۔ افتتاح سے 6ماہ قبل افزائشِ گل کی کمپنیاں گلِ لالہ، سنبل اور نرگس کی قلمیں کیو کنہاف کے مالیوں کو ارسال کردیتی ہیں جو انہیں زمین میں گاڑ دیتے ہیں اور پھر دیکھ بھال اور آبپاشی کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ 6ماہ کے عرصے میں قلم کے سر پر سے ننھی کلی افزائش پاتی ہے اور مارچ کے اواخر تک بند گول مٹھی کی شکل اختیار کرلیتی ہے، پھر نمائش کاآغاز ہوتا ہے۔ ایک سی بلندی پر نرم و نازک تنوں پر سہارا لئے مختلف رنگوں کے پھول مہک کا سمندر پھیلاتے زائرین کو مسحور کرتے ہیں۔
2ماہ کے میلے میں 100 ممالک سے اس نمائش میں حصہ لینے کیلئے لوگ آتے ہیں اور پھول خریدتے ہیں۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ 1632ءاور 1636ءکے درمیان کے 2برسوں میں ایک گلِ لالہ کا خریدنا صاحب ثروت ہونے کی نشانی تھی۔ ایک پھول کی قیمت ایک ہزار گلڈر تک ہوتی تھی اور اتنی رقم میں ایک متوسط حیثیت کا آدمی ایک مکان خرید سکتا تھا۔ صاحبِ گل ہونے کا شوق اور جنون اتنا بڑھ چکا تھا کہ اسے ”ٹیولپ مینیا “کہا جاتا تھا۔ اب ہر برس سارے ہالینڈ میں کیو کنہاف کے علاوہ دوسرے حصوں میں سالانہ 42لاکھ نرگس، سنبل اور گلِ لالہ اگائے جاتے ہیں اور ان میں سے نصف دنیا بھر میں برآمد کئے جاتے ہیں۔
جب مئی کے اواخر میں کیو کنہاف کی نمائش اختتام پذیر ہوتی ہے تو 80 لاکھ میں سے آدھے فروخت ہوچکے ہوتے ہیں۔ باقی پھولوں کو تباہ کردیا جاتا ہے یا جانوروں کے چارے کے طور پر استعمال کرلیا جاتا ہے۔
ہالینڈ کی اقتصاد میں سیاحت اور کیو کنہاف کے پھول انتہائی اہم کردارادا کرسکتے ہیں۔دوسری عالمی جنگ سے قبل ولندیزی استعمار کا دامن جزائر شرق الہند تک پھیلا ہوا تھا۔ وہاں سے لکڑی اور ربڑ بلا معاوضہ ولندیزی بحری جہاز اٹھاتے اور ہالینڈ کے ساحلوں پر لا پھینکتے چنانچہ ولندیزی مصنوعات زیادہ تر جزائر شرق الہند سے لُوٹے گئے خام مال کی مرہون منت رہیں۔ جب یہ جزائر آزادی حاصل کرکے انڈونیشیا بنے تو صدر احمد سوئیکارنو نے اپنے نو آزاد وطن کو آزادی کے مفہوم سے آشنا کردیا۔ ولندیزی اقتصاد مقامی سیاحت اور کیو کنہاف کے پھولوں سے آمدنی پر انحصار کرنے لگی۔ آج ہالینڈ کی شہرہ آفاق پھولوں کی نمائش کے اکثر زائرین امریکہ اور فرانس سے ہوتے ہیں اور انہی 2ممالک کو زیادہ برآمدت ہوتی ہیں۔ کروڑوں ڈالر صرف پھولوں کی فروخت سے آتے ہیں۔
اور اب ایک اداس کن حقیقت!
کیو کنہاف کے ہیکٹروں پر اگائے گئے گلِ لالہ، سنبل اور نرگس کے دلکش معطر غنچے 16ویں صدی سے قبل ہالینڈ میں نہیں تھے۔ انکا وجود سارے یورپ میں نہیں تھا۔ آج جس طرح ایفل ٹاور فرانس کی شناخت ہے اور تاج محل سے لوگ ہندوستان کو پہچانتے ہیں اسی طرح ان پھولوں نے ہالینڈ کو اس کا چہرہ عطا کیا ہے لیکن گلِ لالہ ، سنبل اور نرگس ہمالیہ کی ٹیان شین پہاڑیوں پر صدیوں پہلے خود رو تھے، دسویں صدی میں ترکوں کے ذریعے انقرہ پہنچے جہاں عثمانی سلطان ہر موسمِ بہار میں گلِ لالہ کا جشن منایا کرتے تھے۔ پھر ولندیزیوں نے اس کی قلمیں اٹھائیں اور ہالینڈ اپنے وطن لے گئے۔ 
موسم بہار کے آغاز میں کیو کنہاف کے 32ہیکٹر کھیتوں میں بادِ نسیم کو معطر کرنے والے پھول کا درحقیقت ہمالیہ کی اترائیوں میں اصلی گھر ہے۔ فرق صرف یہ پڑا ہے کہ 70لاکھ کی آبادی والے ہالینڈ میں نہروں کا جال بچھا ہے اور اسکی زمین کی نمی پھولوں کے پتلے نحیف تنوں میں زندگی بن کر دوڑتی ہے جبکہ ہمالیہ کی ڈھلوانوں پر سے بہہ کر آنے والا بر فاب اب کم ہوچکا ہے۔ سندھ، پنجاب ، جہلم جیسے عظیم الشان دریا اب اپنی روانی پر دشمن کے ہاتھوں رکاوٹیں لگواتے آہستہ آہستہ وجود کھو رہے ہیں۔ ان دریاﺅں پر روئیدگی شدتِ تشنگی سے سسک رہی ہے۔ ہالینڈ کے پاس تو لیڈن سے ہارلم تک صرف 23ہزار 500ہیکٹر رقبے پر گلِ لالہ، سنبل اور نرگس اگائے جارہے ہیں لیکن اگر ہمیں ہمارا پانی مل جائے یا ہمارے بہاﺅ کا گلا نہ گھونٹا جائے تو ہمالیہ کی ہزاروں ہیکٹر مرطوب گود کرہ ¿ارض کی سب سے بڑی گلگشت بن جائیگی، گلِ لالہ گھر لوٹ آئیگا، کروڑوں ڈالر لائیگا۔
ہماری آوازکہاں ہے؟ کن مصلحتوں نے ہمارے لبوں پر مہرِسکوت لگا رکھی ہے؟
******

شیئر: