Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
پیر ، 09 جون ، 2025 | Monday , June   09, 2025
پیر ، 09 جون ، 2025 | Monday , June   09, 2025

بل اتنے مل گئے ہیں کہ میں بلبلا اٹھا

جن نلکوں سے پانی کے بجائے ہوا آتی ہو وہاں بھی بل اچھا خاصا آتا ہے اور انسان شرم سے پانی پانی ہوجاتا ہے
* * *ڈاکٹر عابد علی* * *
بل چاہے وہ کسی چیز کا ہو ہاتھ میں آتے ہی لوگ بلبلا اٹھتے ہیں۔ ہر شخص بل کے چکروں میں مارا مارا پھرتا نظر آتا ہے کہیں زیادہ بل آجانے پر دفتروں کے چکر تو کہیں بل جمع کرنے والوں کی بینکوں کے آگے قطاریں حالانکہ اب کافی ایشیائی ممالک میں گھر بیٹھے نیٹ سے یا اپنے اے ٹی ایم کارڈ سے اے ٹی ایم پر جاکر باآسانی خود جمع کراسکتے ہیں لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہر شخص تعلیم یافتہ نہیں، ہر کسی کو اے ٹی ایم یا نیٹ کا استعمال بھی تو نہیں آتا اور کوئی بلوں کو پڑھ بھی نہیں سکتا۔ آئے دن پاکستان میںبجلی کی فی یونٹ قیمت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور بجلی کی مانگ پوری نہیں کی جاسکتی جس کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ کرنا پڑتی ہے جس کو عرف عام میں بجلی کی آنکھ مچولی کہا جاتا ہے۔ اس پر حیرت کی بات یہ ہے کہ بل پھر بھی زیادہ سے زیادہ آتا ہے۔ انور مسعود کہتے ہیں: *جو چوٹ بھی لگی ہے وہ پہلے سے بڑھ کر تھی
 ہر ضرب کر بناک پہ میں تلملا اٹھا
پانی کا سوئی گیس کا بجلی کا فون کا
بل اتنے مل گئے ہیں کہ میں بلبلا اٹھا
مجذوب چشتی:
* کسی نے نہ کی جن کے میٹر کی ریڈنگ *محلے میں ایسے مکاں او ربھی ہیں *غلط بل جو بجلی کا آیا تو کیا غم *مقامات آہ وفغاں اور بھی ہیں * جب سے سی این جی اسٹیشن کھلے ہیں گھریلو استعمال کی سوئی گیس بھی نایاب ہوگئی ہے۔ خاص کر سردیوں کے موسم میں گیس کی سپلائی کم ہوجاتی ہے۔ بجلی چوری کی طرح آجکل گیس کی بھی چوری اک عام سی بات ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ گیس کی لائن میں کنڈے نہیں ڈالتے بلکہ زیر زمین پائپ کنکشن کئے جاتے ہیں۔ پاکستان کے سرد علاقوں میں اگر گیس ترسیل منقطع ہوجاتی ہے تو کئی لوگ ہر سال سردیوں کے موسم میں جو گیس کے ہیٹر جلاکر سوجاتے ہیں گیس منقطع ہونے پر ہیٹر بجھ جاتے ہیں لوگ سوئے رہتے ہیں پھر جب اچانک گیس کی ترسیل بحال ہوتی ہے تو کمرے میں گیس سے گھٹ کر وہ سوتے ہوئے ہی مر جاتے ہیں۔ ٹیلیفون کی ایجاد سے جہاں آسانیاں پیدا ہوئیں وہیں ہر شخص کو مصروف بھی کردیا ہے ۔ ہر شخص اپنے اپنے موبائل فون پر مصروف نظر آتا ہے۔ ایک دوسرے کی خیر خیریت معلوم کرنے کا ٹائم ہی نہیں ہے۔ پہلے پھر بھی لوکل فون یا فون بوتھ جاکر لوگ خیرخیریت معلوم کرلیا کرتے تھے لیکن اب موبائل پر وڈیوز ، ای میل یا فیس بک دیکھتے نظر آتے ہیں۔ پری پیڈ تک تو ٹھیک ہے لیکن پوسٹ پیڈ بل اتنے آجاتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔ پانی اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی سب سے بڑی نعمت ہے لیکن کیا کیا جائے واٹر بورڈ والوں کا کہ اسکا بھی میٹر لگا دیا گیا ہے اور بل آتا ہے جن نلکوں میں پانی بھی نہیں آتا، ہوا نکلتی ہے وہاں بھی پانی کابل اچھا خاصا آجاتا ہے اور انسان شرم سے پانی پانی ہوجاتا ہے۔ بیگم کی شاپنگ کابھی بل آتا ہے اس بل سے دل بوجھل ہوجاتا ہے یہ بل کڑوا گھونٹ بھر کر بھرا جاتاہے یا پھر ڈاکٹر کی فیس کا بل ادا کرتے وقت ۔ بقول اکبر الہ آبادی:
ان کو کیا کام ہے مروت سے
اپنے رخ سے یہ منہ نہ موڑیں گے
جان شاید فرشتے چھوڑ بھی دیں
ڈاکٹر اپنا بل نہ چھوڑ یں گے
اخبار کا بل دل کا غبار نکالنے والی خبروں کے عوض آتا ہے ان اخبارات کا خود کا بل تو آتا ہی ہے ان میں زیادہ تر خبریں بل کلنٹن ، گر اہم بیل تو کبھی بل گیٹس کی شائع ہوا کرتی ہیں۔ویسے تو آج کل بعض اخبارات ای پیپر کی صورت میں پڑھے جاسکتے ہیں اور اس طرح اس کے بل سے بچا جاسکتا ہے لیکن ہر اخبار نیٹ پر آپ کی دسترس میں نہیں ہے۔ ہوٹل کا بل: ہوٹل کا بل کھانا کھاکر ڈکار مارنے والی بات ہے۔ ہوٹل کا کھانا کھانے کے بعد دل چاہتا ہے کہ ہوٹل کا بل ٹوٹل ٹل جائے کیونکہ یہ ادا کرتے وقت وقت دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے۔ بڑی بڑی کمپنیوں کے افسران کو علاج معالجے کی سہولتیں کمپنی کی طرف سے ہوتی ہیں۔ اسکا بھی غلط فائدہ لوگ جعلی بل بنواکر کمپنی سے رقم بٹورتے ہیں بقول نیاز سواتی :
 سرجن سے تب میڈیکل کا بوگس بل بنوایا ہے
 ہم نے اس کے ہاتھ میں پورے سو کا نوٹ تھمایا ہے
ہم نے جب نذرانہ دے کر اس کے دل کو موم کیا
 دفتر کے چپراسی نے تب صاحب سے ملوایا ہے

شیئر: