’بچے باپ کو تڑپتا دیکھ رہے تھے اور ایمبولینس نہیں ملی‘
’بچے باپ کو تڑپتا دیکھ رہے تھے اور ایمبولینس نہیں ملی‘
جمعرات 14 جولائی 2022 7:51
زین علی -اردو نیوز، کراچی
رواں سال پانچ جون کو پاکستان کے معروف اینکر اور سیاستدان ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی اچانک موت نے ان کے چاہنے والوں کو دم بخود کر دیا تھا۔
عامر لیاقت کی موت کی اطلاع کے بعد جب ان کے قریبی دوست احباب اور ٹی وی چینلز کے نمائندے ان کے گھر پہنچ رہے تھے، اس وقت پرائیوٹ ایمبولینسز کے ڈرائیورز میں تکرار جاری تھی کہ کون عامر لیاقت کی میت کو ہسپتال منتقل کرے گا۔
ایسا پہلی بار نہیں ہوا، اس سے پہلے کراچی کے سابق ناظم نعمت اللہ خان کی وفات پر بھی کچھ ایسے ہی مناظر دیکھنے کو ملے تھے جبکہ ایک مشہور سپر سٹور میں آتشزدگی کے بعد بھی ایمبولینسز کے ڈرائیور کو ایک دوسرے سے الجھتے دیکھا گیا۔
اب یہ عام تاثر بن چکا ہے ہے کہ جس واقعے کی میڈیا کوریج ہونے کا امکان ہو یا جس سے لوگوں کی توجہ حاصل کی جا سکے، پرائیوٹ ایمبولینسز بروقت امدادی خدمات کے لیے پہنچ جاتی ہیں لیکن ایک عام آدمی کے لیے صوتحال اس کے برعکس ہوتی ہے۔
کسی مریض کو ہسپتال لے جانا ہو یا کوئی اور ہنگامی صورتحال ہو، گھنٹوں کالز کرنے پر بھی کوئی ایمبولینس دستیاب نہیں ہوتی۔
کراچی کی رہائشی فرزانہ تسلیم کو اس وقت شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جب ان کے شوہر تسلیم چانڈیو کی طبعیت اچانک خراب ہوگئی۔
ان کے شوہر کو سینے میں تکلیف کی شکایت ہوئی تو انہوں نے ایمبولینس بلوانے کے لیے کال کی۔ تین بار فون کرنے کے باوجود 25 منٹ تک ایمبولینس گھر نہیں پہنچی۔
جس کے بعد انہوں نے ہمسائے کے رکشے میں اپنے شوہر کو امراض قلب کے ہسپتال منتقل کیا۔
فرزانہ تسلیم نے اردو نیوز کو بتایا کہ زندگی کے مشکل ترین وقت اور ہنگامی حالات میں ایمبولینس نہ ملنا ان کے لیے مایوس کن اور انتہائی تکلیف دہ تھا۔
’ایمبولینس کا انتظار کرنا میرے لیے آسان نہیں تھا۔ میرے دو چھوٹے بچے گھر میں تھے جو اپنے باپ کو تڑپتا دیکھ رہے تھے۔ ان کا رونا تھا اور میرے شوہر کی تکلیف تھی، میری سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں؟‘
کسی مریض کو ہسپتال لے جانا ہو یا کوئی اور ہنگامی صورتحال ہو، گھنٹوں کالز کرنے پر بھی کوئی ایمبولینس دستیاب نہیں ہوتی (فوٹو: اردو نیوز)
انہوں نے بتایا کہ ’ہمارے گھر سے جناح ہسپتال اور امراض قلب کا ہسپتال قریب ہی ہے جہاں درجنوں ایمبولینسس ہر وقت موجود ہوتی ہیں۔ اس کے باوجود ہمیں ایک ایمبولینس نہیں ملی۔‘
کراچی میں اس وقت تین بڑی ایمبولینس سروسز کام کررہی ہیں جن کے پاس ایک اندازے کے مطابق ایک ہزار ایمبولینس گاڑیاں ہیں جو اندرون شہر بیماروں، معذوروں اور میتوں کی منتقلی پر مامور ہیں۔
ملک کی معروف فلاحی تنظیم ایدھی کے سربراہ سعد ایدھی کے مطابق ان کے پاس ملک بھر میں 1800 اور کراچی میں 450 ایمبولینس ہیں جو 24 گھنٹوں میں تقریباً سات ہزار سے زائد مریضوں کو ہسپتال منتقل کرتی ہیں۔
چھیپا ویلفیئر کے ترجمان شاہد حسین نے اردو نیوز کو بتایا کہ ان کے پاس شہر میں 400 سے زائد ایمبولینس موجود ہیں جو تقریباً پانچ سے چھ ہزار افراد یومیہ ریسکیو کرتی ہیں۔
حال ہی میں سندھ حکومت کی جانب سے شروع کی جانے والی ریسکیو 1122 کو 50 جدید ایمبولینس گاڑیاں فراہم کی گئی ہیں تاہم اس کے باوجود ضرورت کے وقت شہر کی ایک بڑی آبادی اس سہولت سے محروم رہتی ہے۔
سماجی کارکن جبران ناصر کے مطابق سندھ ہائیکورٹ میں جمع کروائے گیے حکومت اور محکمہ صحت کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ صوبہ سندھ میں ایک لاکھ سے سوا لاکھ لوگوں کے لیے صرف ایک سرکاری ایمبولینس دستیاب ہے۔
ریسکیو 1122 سے منسلک ڈاکٹر منصور نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’کراچی میں ایمبولینس سروس چلانا ایک مشکل کام ہے۔‘
حال ہی میں سندھ حکومت کی جانب سے شروع کی جانے والی ریسکیو 1122 کو 50 جدید ایمبولینس گاڑیاں فراہم کی گئی ہیں (فوٹو: اردو نیوز)
انہوں نے بتایا کہ ’چند روز قبل سپر سٹور میں آتشزدگی کے واقعے میں ہلاک ہونے والے لڑکے کی لاش ایک فلاحی ادارے کے رضاکاروں نے اپنے قبضے میں لے لی اور روانہ ہونے لگے۔ سرکاری ادارہ ہونے کے ناطے میں نے ایمبولینس کو روکنے کی کوشش کی لیکن ڈرائیور نے گاڑی نہیں روکی اور اس انداز میں ایمبولینس نکالی کہ میں حادثے سے بال بال بچا۔‘
ڈاکٹر منصور کے بقول ایمبولینس میں جان بچانے والے آلات کے ساتھ تربیت یافتہ عملہ بھی ہونا چاہیے لیکن بدقسمتی سے یہاں کام کرنے والی ایمبولینسس ٹیکسی سے زیادہ کچھ نہیں۔
سینیئر کرائم رپورٹر رجب علی، جو شہر کے ہنگامی حالات سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں، نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عام لوگوں کو ہنگامی صورتحال میں ایمبولینس نہ ملنا اب شہر کا ایک اہم مسئلہ ہے۔
’شہر میں کام کرنے والی فلاحی اداروں کی ایمبولینس سروس کسی بھی بڑے حادثے یا واقعے کے بعد درجنوں کی تعداد میں جائے وقوعہ پر موجود رہتی ہیں۔ اس کے علاوہ زخمیوں کو ریسیکیو کرنے اور لاش کو اٹھانے کی جنگ بھی آئے روز دیکھنے میں آتی ہے لیکن عام بیمار اور معذور شہریوں کو ہسپتال منتقلی کے لیے ایمبولینس حاصل کرنے کے لیے شہریوں کو مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔‘
ایمبولینس فراہم کرنے والے بڑے فلاحی ادارے ایدھی اور چھیپا دونوں اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ عام شہریوں کو ایمرجنسی کے وقت ایمبولینس نہیں ملتی۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ ہر کال کا جواب دیتے ہیں اور گاڑی بھجواتے ہیں جبکہ ان کا ’عملہ انتہائی تربیت یافتہ ہے جس کا واحد مقصد مصیبت میں لوگوں کی مدد کرنا ہے۔‘
فرزانہ تسلیم سمجھتی ہیں کہ اگر ان کے پڑوسی بروقت ان کی مدد کو نہ پہنچتے اور ان کے شوہر کو رکشے میں ہسپتال نہ پہنچاتے تو ان کی زندگی بچانا مشکل ہوتا۔