کچھ عالمی طاقتیں اپنے مفادات کی جنگ مشرق کی طرف دھکیل رہی ہیں جس کا فوری تدارک ضروری ہے
سید شکیل احمد
امریکہ کے شام پر حملے سے کوئی نئی صورتحال پید ا نہیں ہو ئی سوائے اس با ت کے ڈالر تقریباً6 فیصد لرز گیا اور ساتھ ہی سونے اور تیل کی قیمتو ں میں قدرے اضافہ ہو ا ۔ عالمی ما رکیٹ میںڈالر کی گر اوٹ سے جو گھبراہٹ پید ا ہو ئی تھی اب اس میں سکو ن آگیا ۔کئی اسلامی ممالک سمیت دنیا کے متعدد ملکو ں نے امریکی حملے کی حما یت کی ہے جبکہ روس اور ایر ان نے کھل کر مخالفت کی تاہم یہ بات درست ہے کہ کیمیا ئی ہتھیا رو ں کے پھیلا ؤ اور ان کا انسانی جا نو ں کیخلا ف استعمال کی اجا زت قطعاًنہیں دی جا سکتی ، البتہ امریکی حملو ں کو ایک اور اند از میں بھی لیا جارہا ہے کہ یہ حملہ ایک ایسے وقت میںکیا گیا ہے جب رو س نے امریکہ کی جا نب سے افغانستان کے امن کے بارے میں طلب کر دہ کا نفر نس میں شرکت سے انکا ر کرنے پر اپنا ردعمل ظاہر کیا جس میں روسی نمائند ے نے کہا کہ روس امریکہ سے ڈکٹیشن نہیںلے گا ۔ روسی ردعمل گویا اس بات کا اظہا ر تھا کہ امریکہ تن تنہا سپر پا ور نہیں چنا نچہ شام پر حملہ کو اس تنا ظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے کہ امر یکہ نے خو د کو سپر پا ور تسلیم کر انے کیلئے کا رروائی کی۔ ہو سکتا ہے کہ یہ بات اپنی جگہ درست ہو۔
یہ بات دنیا کو معلوم ہے کہ امریکہ کی اس کا رروائی سے امریکہ رو س تعلقات میں کشیدگی پید ا ہوگی تو امریکہ کو چاہیے تھا کہ وہ شام کے خلا ف کا رروائی سے قبل روس کو اعتما د میں لیتا ۔بہر حال یہ عالمی پیچید گیا ں ہیں تاہم روس اس وقت دوسری سپر پا ور کا کر دار ادا کر تا نظر آرہا ہے۔ جہا ں اس نے ماسکو کا نفرنس کے انعقاد میںعدم شرکت کے سوال پر امریکہ کو لتاڑا و ہیں رو س نے امریکہ سے ہٹ کر افغانستا ن طالبان سے تعلقات اور تعاون کا معاہد ہ کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ بھی عالمی طا قت کا حصہ ہے۔
طالبان اور روس کے درمیا ن تعلقات کے قیام کے سلسلے میں معاہد ہ کر انے اور روابط قائم کر نے میںایر ان نے بھی کر دار ادا کیا ہے ، چنا نچہ طالبان نے معاہد ے میں اس با ت کو قبول کیا ہے کہ ماضی میں طالبان اور ایر ان کے درمیا ن جو کشید گی رہی ہے اس کے پس منظر میں طالبان ایر ان کیخلا ف کوئی کا ر ر وائی نہیں کر یں گے۔ بر سر اقتدار آکر بھی وہ ایر ان کے ساتھ خوش گو ار رہیں گے ۔روس اور طالبان کے درمیا ن 10نکا تی معاہد ہ ہو چکا ہے جو طویل مذاکر ات کے بعد طے پایا ، جس میں طالبان کی جد وجہد کو رو س نے تسلیم کر لیا اور اس معاہد ے کی رو سے طالبان کی امارات کو بھی تسلیم کیا گیا ہے اور طالبان کے اقتدا ر میں آجا نے کی صورت میں افغانستان کی مد د کا وعد ہ بھی کیا گیا ہے ، علا وہ ازیں اطلا عا ت کے مطا بق طالبان نے اس امر کی یقین دہا نی بھی کر ائی ہے کہ طالبان رو س کے علیحد گی پسند جنگجوؤ ں کو نہ تو پنا ہ دیں گے اور نہ ہی ان کی کسی قسم کی مد د کر یں گے ۔
کہا جا تا ہے کہ طالبان کے امیر ملا منصور اختر کو امر یکہ نے اسی بنا ء پر مارا کہ اسکے بارے میں سن گن پڑ گئی تھی کہ روس کے ساتھ مذاکر ات ہو رہے ہیں اور اختر منصور نے کئی ملا قاتیں روسی صدر پو ٹین سے خفیہ مقام پرکی جن کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ یہ ایر ان کے ساحلی علا قو ں کے اند ر بھی ہو ئی ہیں ۔ طالبان امیر جب ایر ان سے ملا قات کے بعد آپس آرہے تھے تو ان کو پاکستان میں واپسی کے موقع پر ہلا ک کر دیا گیا تھا ، جس سے مذاکرات میںکچھ تعطل تو پید ا ہو ا مگر یہ کھل جا نے والی کڑی دوبارہ جڑ گئی اور طالبان اس امر پر رضامند ہو گئے کہ قیا م امن کی کا شو ں کا حصہ بننے کو تیا رہیں ۔معاہد ے میں یہ امربھی شامل ہے کہ طالبان کیلئے عام معافی کا اعلان کیا جا ئے گا اور اقوام متحدہ میں روس اور چین اس کی بھر پو ر حما یت کر یں گے ساتھ ہی برطانیہ ، فرانس اور امریکہ سے بھی کہا جا ئے گا کہ عام معافی کے اعلا ن کی حما یت کر یں ۔
ذرائع جس طر ح معاہدے کا دعویٰ کر رہے ہیں اُس کے مطا بق یہ عالمی سطح پر ایک اہم تبدیلی اور پیشرفت قر ار پا تی ہے ، مگر اس سارے عمل میں امریکہ بے عملی اور بے دلی کا شکا ر نظر آتا ہے جبکہ افغانستان کی صورتحال کے اصل 2فریق ہیں۔ایک افغان حکومت جس کو بنیا دی طو ر پر ثانو ی حیثیت حاصل ہے جبکہ امریکہ اصل فریق ہے کیونکہ روس کے افغانستان سے نکل جا نے کے بعد سے موجودہ حالات تک کی ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے ۔چنا نچہ افغان امور سے تھکا وٹ کا اظہا ر خود امر یکہ کے مفادات میںنہیں ۔ اس کوچاہیے کہ افغانستان کے سلسلے میں ہو نے والی ہر پیشرفت کا حصہ بن کر مسئلے کے سلجھا ؤ کیلئے کر دار اد اکر ے ۔ آنے والے دن جنو بی ایشیا اور وسطی ایشیا کیلئے اہم ترین ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کیلئے اثر اند از ہو نے والے دن ہیں ، کیو نکہ داعش کا عفر یت اس خطے میں پھیلتا جا رہا ہے ۔امریکہ کی خوش قسمتی ہے کہ طالبان اور داعش کے درمیا ن ہم آہنگی نہیں ہو ئی ورنہ صورتحال مختلف ہو تی ۔ گو امریکی اداروں نے طالبان کو کمزور کر نے کی غرض سے داعش کو افغانستان میں داخل کر ایا ۔
ا ب وہ طالبان کیلئے اتنا درد سر نہیں جتنا کہ وہ خود امریکہ کیلئے بن گئے ہیں۔ ویسے طالبان کے ہو تے ہوئے افغانستان میںداعش کی آبیاری کی قطعا ً ضرورت تو نہ تھی۔ اگر کسی کو گما ن تھا کہ اس طر ح طالبان کی قو ت کو مضمحل کر دیا جا ئے گا تو یہ خوش فہمی تو ہو سکتی ہے ، اس سے بڑھ کر کچھ اور نہیں ۔ داعش کسی حد تک افغانستان میںپھیل گئے ہیں مگر طالبان کا تو ڑ نہیں بن سکے اورنہ بن پائیں گے ، البتہ یہ محسو س کیا جا رہا ہے کہ ایر ان ، ترکی اور پاکستان کو عالمی طا قتو ں کی چپقلش کی بھینٹ چڑھا یا جا رہا ہے جبکہ داعش کے اس خطے میں پھیلنے سے پا کستان ، ایر ان ، اور چین کے جنوب مشرقی علا قوں کے ساتھ ساتھ وسطی ایشیا اور روس کے لیے خطرات کے بادل پھیلتے نظر آرہے ہیں ، گویا کچھ عالمی طا قتیں اپنے مفادا ت کے جنگ کی خونریزی مشرق کی طر ف دھکیلنے میں مگن لگ رہی ہیں جس کا فوری ادراک اور تدارک ضروری ہے ۔