پاکستان میں سیاسی بحران اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھتا دکھائی دے رہا۔ اونٹ حکومت کی کروٹ بیٹھے گا یا اپوزیشن کی، کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔ البتہ فریقین اپنی ہونے والی یقینی جیت کا دعویٰ کر رہے ہیں۔
حکومت ایک طرف اپنے ہی اراکین کو سنبھالنے کی مشق میں لگی ہے تو دوسری طرف اپنے اتحادیوں کو ساتھ جوڑے رکھنے کے جتن بھی کر رہی ہے۔
مزید پڑھیں
-
ترین گروپ میں شامل ہونے والے عبدالعلیم خان کون ہیں؟Node ID: 650731
-
تحریک انصاف کا ڈی چوک کے بجائے پریڈ گراؤنڈ میں جلسے کا فیصلہNode ID: 654696
ادھر اپوزیشن بھی کم و بیش یہی کچھ کر رہی ہے۔ حکومتی اراکین کو اپنے ساتھ ملایا جا رہا ہے اور حکومتی اتحادیوں سے بھی ملاقاتیں زور و شور سے جاری ہیں۔ اس میں کئی طرح کے اتار چڑھاؤ بھی دیکھنے کو ملے۔ مثلاً تحریک انصاف کے ناراض لیڈر عبدالعلیم خان جنہوں نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوتے ہی ہم خیال گروپ کا اعلان کر دیا اور حکومت سے ناراض جہانگیر ترین گروپ کے ساتھ مل کر چلنے کا اعلان کر دیا۔
ایک وقت تو یہ محسوس ہوا کہ شاید تحریک انصاف کو بیرونی سے زیادہ اندرونی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ملکی میڈیا پر دو تین روز علیم خان کے علم بغاوت کا بڑا چرچا رہا۔ وہ جہانگیر ترین کے لاہور میں واقع گھر بھی گئے جہاں انہوں نے لندن میں بیٹھے جہانگیر ترین سے ویڈیو لنک پر گفتگو کی اور ساتھ چلنے کے عزم کا اعادہ کیا۔
اس کہانی کا کلائمیکس اس وقت ہوا جب علیم خان اچانک اسلام آباد سے لندن روانہ ہو گئے۔ انہوں نے اپنے اس دورے کی تفصیلات کسی کے ساتھ شئیر نہیں کیں۔ البتہ چند روز لندن میں قیام کے بعد وہ واپس آئے اور اس کے بعد ان کی طرف سے مکمل خاموشی ہے۔
