نومبر 2019 میں ایک ایئر ایمبولینس کے ذریعے سابق وزیراعظم نواز شریف علاج کے لیے لندن چلے گئے تھے جس کے بعد وہ اب تک برطانیہ میں مقیم ہیں۔
ان کی غیرموجودگی میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے بینر تلے پاکستان مسلم لیگ ن سمیت دیگر حزب اختلاف کی جماعتوں نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے خلاف مزاحتمی سیاست جاری رکھی۔
واضح رہے اپوزیشن جماعتیں 2018 کے انتخابات کے بعد سے اب تک یہ دعویٰ کرتی آئیں ہیں کہ پی ٹی آئی کی الیکشن میں جیت اسٹیبلشمنٹ کے مرہون منت تھی۔
مزید پڑھیں
-
اتحادیوں کے خطرناک اشارے، کیا پارٹی واقعی اوور ہو گئی ہے؟Node ID: 653216
-
پی ٹی آئی کے بغیر پانچ سال کے لیے قومی حکومت بنائیں گے: ن لیگNode ID: 653311
پی ڈی ایم میں پاکستان مسلم لیگ ن، جمعیت علماء اسلام (ف)، بلوچستان نیشنل پارٹی اور دیگر علاقائی اور قومی جماعتوں کا ایک اتحاد ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) بھی اس اتحاد کا حصہ تھی لیکن سیاسی اختلافات کے باعث وہ پی ڈی ایم سے الگ ہو گئے تھے۔
پی ڈی ایم کے بینر تلے ہونے والے جلسوں، جلوسوں اور پریس کانفرنسوں کے دوران نواز شریف کی صاحبزادی اپنے والد کے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کو آگے بڑھاتی نظر آتی تھیں اور متعدد بار وہ نہ صرف وزیراعظم عمران خان بلکہ فوجی افسران بشمول سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کے اوپر بھی گرجتی برستی تھیں۔
نہ صرف پاکستان مسلم لیگ ن بلکہ دیگر جماعتوں کے اراکین بھی مریم نواز کو اپنی جماعت کا ’کراؤڈ پلر‘ یعنی لوگوں کی توجہ اپنی طرف راغب کرنے والے کہتے تھے۔
لیکن 2019 کے بعد سے کئی بار یہ دیکھنے میں آیا کہ وقتاً فوقتاً مریم نواز خاموشی اختیار کر لیتیں اور پارٹی کے صدر اور ان کے چچا شہباز شریف آگے آ جاتے۔

حالیہ دنوں میں حزب اختلاف کی جماعتوں کی حکومت مخالف سیاست میں تیزی آئی ہے اور سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں جمع کرائی جانے والی قرارداد حکومت کے لیے اب تک کا سب سے بڑا امتحان ہے۔
لیکن حکومت کے اس امتحان کے وقت ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز سیاسی منظر نامے سے بالکل غائب ہوگئی ہوں۔
مریم نواز اپنی پارٹی کے اجلاسوں یا سیاسی ملاقاتوں کے بعد جاری ہونے والی فوٹیج میں اکثر نظر آجاتی ہیں لیکن اب وہ پریس کانفرنسوں میں دکھائی نہیں دیتیں اور نہ ان کا اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ کہیں میڈیا میں سنائی دیتا ہے۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر وہ واحد شے ہے جہاں مریم نواز ایکٹو نظر آتی ہیں اور حکومتی جماعت بالخصوص وزیراعظم عمران خان پر طنز و تنقید کے نشتر بھی تواتر سے برساتی ہیں۔
ان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ صرف مارچ کے ماہ میں اب تک انہوں نے 31 ٹویٹس کی ہیں اور اسی دوران وہ اپنے والد اور چچا کی ٹویٹس کو بھی ریٹویٹ کرتی رہی ہیں۔
ان 31 ٹویٹس میں متعدد بار مریم نواز نے وزیراعظم عمران خان پر تنقید کی، انہیں ’نااہل‘ قرار دیا، حکومت کی مشکلات کو ’مکافات عمل‘ قرار دیا۔
سیاست میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں اور حکومت بھی آنی جانی شے ہے مگر تکبر اور ظلم انسان کے آگے آتا ہے۔ نواز شریف صاحب پر یہ انکی ذاتی و سیاسی زندگی کا شاید مشکل ترین وقت تھا مگر بدترین حالات کے باوجود انکا کوئی ساتھی انھیں چھوڑ کر نہیں گیا۔کیونکہ انھوں نے ہر کسی کو عزت دی۔
— Maryam Nawaz Sharif (@MaryamNSharif) March 7, 2022
اپنی دیگر ٹویٹس میں انہوں نے رواں ماہ ہونے والے پشاور حملے کی مذمت کی، سابق صدر رفیق تارڑ کی موت پر تعزیت کی اور وزیراعظم عمران خان کی جلسوں میں استعمال کی جانے والی زبان پر بھی تنقید کی۔
ایک ٹویٹ میں انہوں نے وزیراعظم عمران خان کو ’سپورٹس مین سپرٹ‘ دکھانے کا بھی مشورہ دیا۔
Why falling apart & sounding hysterical @ImranKhanPTI ? The game has only just begun, dude & you have already lost it! Show some sportsman spirit man!
— Maryam Nawaz Sharif (@MaryamNSharif) March 6, 2022
نہ صرف یہ بلکہ وہ وزیر اعظم عمران خان پر تنقید کے لیے شعر و شاعری کا استعمال کرتی ہوئی بھی نظر آتی ہیں۔
وزیراعظم کی اپنے اتحادیوں سے ملاقات پر انہوں نے کچھ دن قبل لکھا ’کبھی عرش پر کبھی فرش پر، کبھی ان کے در کبھی دربد، غم کرسی تیرا شکریہ ہم کہاں کہاں سے گزر گئے!‘
کبھی عرش پر کبھی فرش پر کبھی ان کے در کبھی دربدر
غم کرسی تیرا شکریہ ہم کہاں کہاں سے گزر گئے !— Maryam Nawaz Sharif (@MaryamNSharif) March 9, 2022
پی ڈی ایم کے تحت اسلام آباد میں حکومت مخالف لانگ مارچ 23 مارچ کو ہونا تھا تاہم پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے پاکستانی دارالحکومت میں اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کی موجودگی اور کانفرنس کے پیش نظر مارچ کی تاریخ کو دو دن آگے بڑھا دیا ہے۔
مریم نواز عملی سیاست سے دور کیوں نظر آتی ہیں؟
حکومت مخالف مارچ اب 25 مارچ کو تمام وزرائے خارجہ کی اپنے ممالک واپسی کے بعد اسلام آباد میں داخل ہوگا۔ اسی لانگ مارچ کے حوالے سے پاکستانی میڈیا پر مولانہ فضل الرحمان سے منسوب کرکے یہ خبریں بھی چل رہی تھیں کہ مریم نواز اس مارچ کی قیادت کریں۔
تاہم مریم نواز کے ترجمان محمد زبیر نے اردو نیوز کو بتایا کہ اس حوالے سے اب تک کوئی فیصلہ نہیں لیا گیا ہے۔
جب محمد زبیر سے مریم نواز کی خاموش کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے کہا کہ ’لوگ روایتی سیاست کے عادی ہو گئے ہیں جس میں ایک شخص کے اردگرد سارے معاملات گھومتے ہیں۔‘
’پاکستان مسلم لیگ ن ایک بہت بڑی پارٹی ہے جس میں بہت سارے لوگ ہیں اور اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس وقت شہباز شریف دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کی قیادت کر رہے ہیں۔ مریم نواز خاموش نہیں ہیں اور وہ یہیں موجود ہیں۔ جب پارٹی کو ان کی ضرورت ہوگی ان کا انتہائی احسن طریقے سے استعمال کیا جائے گا۔‘
