پاکستان کی وفاقی حکومت نے گریڈ 1 سے 19 تک کے سرکاری ملازمین کی بنیادی تنخواہوں پر 15 فیصد تک ڈسپیرٹی الاؤنس دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
حکومت کی جانب سے اس فیصلے کو ملکی معیشت کی بہتری کا مظہر قرار دیا جا رہا ہے۔
وزیر اطلاعات فواد چودھری نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’صحت کارڈ کے بعد تنخواہوں میں 15 فیصد مزید اضافہ، اس وقت ملک میں معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی ہو رہی ہے انشااللہ ایک سال میں آمدنیوں میں مزید اضافہ ہو گا عمران خان پاکستان کو اسلامی فلاحی مملکت بنا رہے ہیں اور تمام اقدامات اسی منشور کو سامنے رکھ کر لیے جا رہے ہیں۔‘
مزید پڑھیں
-
’ججز کی تنخواہ قانون کے مطابق ہے تو کوئی بھی معلومات لے سکتا ہے‘Node ID: 631256
-
’سرکاری ملازم کا خفیہ دستاویز عام کرنا سنگین جرم‘Node ID: 642301
لیکن فواد چودھری تنخواہوں میں جس اضافے کی بات کر رہے ہیں کیا وہ حکومت کا معاشی بہتری کے نتیجے پر کیا جانے والا فیصلہ ہے؟
معاشی ماہرین کے مطابق ایسا نہیں ہے بلکہ ڈسپیرٹی الاونس وفاقی حکومت کے مختلف اداروں کے درمیان ملازمین کی تنخواہوں میں پائے جانے والے فرق کو کم کرنے کی ایک کوشش ہے۔
معاشی امور کو کور کرنے والے صحافی خلیق کیانی کے مطابق ’وفاقی حکومت کے کئی ایک ادارے جن میں سپریم کورٹ، ایف بی آر، پارلیمنٹ، ایوان صدر، وزیراعظم آفس اور کچھ دیگر ادارے ایسے ہیں جنھوں نے کئی ایک الاونسز کی مد میں اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کر رکھا ہے۔ یہ اضافہ ایک سے تین گنا تک فرق پیدا کر چکا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اگر وفاقی سیکرٹریٹ میں ایک وزارت کے گریڈ 19 کے افسر کی تنخواہ ایک لاکھ روپے ہے تو ایوان صدر یا اس طرح کے دیگر اداروں میں کام کرنے والے اسی گریڈ کی افسر کی تنخواہ اڑھائی سے تین لاکھ روپے بن رہی ہے۔‘
خلیق کیانی کا کہنا تھا کہ ’اسی بنیاد پر گزشتہ سال فروری میں سرکاری ملازمین نے پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے شدید احتجاج کیا تھا۔ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں اس وقت بھی حکومت نے 25 فیصد ڈسپیرٹی الاونس دیا تھا۔ اب چونکہ ساتھ ساتھ مہنگائی بھی بڑھ رہی ہے تو گزشتہ ماہ سرکاری ملازمین نے پارلیمنٹ کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے تنخواہوں میں موجود اس فرق کو کم کرنے کے لیے حکومت کے سامنے اپنے مطالبات رکھے تھے اور آج یعنی 10 فروری کی ڈیڈ لائن دی تھی۔ اس شدید احتجاج کے پیش نظر حکومت نے 15 فیصد ڈسپیرٹی الاونس دینے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

معاشی ماہر ساجد امین کے مطابق ’ملکی معیشت میں بہتری کے دعوے اپنی جگہ درست ہوں گے لیکن حقیقت میں اس وقت مہنگائی اور ملکی حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ تحریک انصاف جیسی جماعت بھی غیرمقبول سیاسی اقدامات کی اپنی پالیسی سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔ ماضی میں جب بھی کسی طبقے بالخصوص سرکاری ملازمین نے احتجاج کیا حکومت نے واضح الفاظ میں کہا کہ وہ ان سے بلیک میل نہیں ہوں گے لیکن آدھے خیبرپختونخوا میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں شکست نے حکومت کو اپنے فیصلے بدلنے پر مجبور کیا ہے۔‘
ان کے مطابق ’اس وقت چاروں صوبوں میں بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں۔ عام انتخابات میں بھی زیادہ عرصہ باقی نہیں بچا۔ کے پی حکومت کے پاس رپورٹس ہیں کہ سرکاری ملازمین نے حکومت کے خلاف نہ صرف ووٹ دیے بلکہ ووٹ دلوائے بھی جس وجہ سے انھیں اب سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں موجود فرق کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ڈسپیرٹی الاونس دینا پڑا۔‘
پاک سیکرٹریٹ کے ملازمین کے مطابق ’ہمارے مطالبات تنخواہوں میں فرق کو ختم کرنے، مہنگائی الاونس دینے، گریڈ ایک سے گریڈ 16 کے درمیان پے سکیل پر نظرثانی اور ایڈہاک ریلیف کو بنیادی تنخواہ میں ضم کرنے کے تھے۔ جن میں کچھ پر عمل ہوا ہے اور کچھ پر عمل درآمد کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم نے وقتی طور پر احتجاج ختم کیا ہے لیکن مکمل فرق کے خاتمے تک جدوجہد جاری رکھیں گے۔‘
