دنیا بھر میں کورونا وبا کے آغاز کے ساتھ ہی تمام ممالک نے جو پہلا قدم اٹھایا وہ لاک ڈاون کے ساتھ ساتھ سفری پابندیاں تھیں۔ جس کے تحت کم و بیش ہر ملک نے اپنی سرحدیں بند کر دیں۔
اس سے نہ صرف دنیا بھر کے کاروبار متاثر ہوئے بلکہ بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات شدید متاثر ہوئے۔
مزید پڑھیں
-
چین میں پاکستانی طلبہ کا مستقبل داؤ پرNode ID: 518276
-
سعودی عرب کی 25 جامعات میں پاکستانی طلبہ کےلیے 650 سکالرشپسNode ID: 637421
ویکسین کی دریافت اور وافر مقدار میں دستیابی کے بعد دنیا کے کئی ممالک نے سفری پابندیاں تو ختم کر دیں لیکن چین سمیت کئی ممالک کی جانب سے یہ پابندیاں تاحال برقرار ہیں۔ جس کی وجہ سے ہزاروں پاکستانی طالب علم اپنی تعلیم مکمل کرنے سے محروم ہو رہے ہیں۔
صرف چین ہی نہیں بلکہ نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، جاپان اور دیگر ممالک کی یونیورسٹیوں میں داخلے حاصل کرنے اور فیسیں ادا کرنے کے باوجود بہت سے پاکستانی طالب علم ان سفری پابندیوں کے باعث بیرون ملک روانہ نہیں ہوسکے۔
تعلیمی کنسلٹنٹ مبشر احمد کے مطابق گذشتہ دو برس اعلیٰ تعلیم کے لحاظ سے ڈراؤنا خواب ثابت ہوئے ہیں۔ مختلف ممالک میں یونیورسٹیاں اپنے تعلیمی پروگرامات کے حوالے سے بالکل بے بس نظر آئی ہیں۔ کئی یونیورسٹیوں نے سینکڑوں طالب علموں کو داخلے دیے اور ان سے فیسیں وصول کیں لیکن حکومتی اقدامات کے باعث وہ انہیں بلوا نہیں سکیں۔‘
ان کے مطابق ’سب سے زیادہ متاثرہ طالب علم چینی یونیورسٹیوں کے ہیں، اس کے علاوہ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جاپان کی یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے والے طالب علم ہیں۔ برطانیہ کی یونیورسٹیوں کے طالب علموں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن اب وہ تقریباً معمول پر آ چکے ہیں۔‘
جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے محمد رمضان نے 2020 میں نیوزی لینڈ کی یونیورسٹی میں داخلے کے لیے اپنا پلاٹ بیچا۔ پی ایچ ڈی میں داخلہ بھی ہو گیا اور باقی امور بھی مکمل ہوگئے لیکن عین روانگی کے وقت نیوزی لینڈ نے اپنے بارڈرز بند کر دیے۔ دو برس سے وہ منتظر ہیں کہ کب پابندی ختم ہوگی اور وہ روانہ ہو سکیں گے۔

اس معاملے میں ایچ ای سی اور دفتر خارجہ سمیت تمام پاکستانی ادارے بھی بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کورونا کے حوالے سے ہر ملک کے اپنے اپنے قواعد ہیں اور ان کی روشنی میں وہ پاکستانی طالب علموں کو سہولت فراہم کرنے کی درخواست تو کر سکتے ہیں لیکن مقامی سطح کے قوانین میں تبدیلی کے لیے انہیں مجبور نہیں کر سکتے۔
یہ جواب عموماً چین سے پاکستان واپس آنے والے ان طالب علموں کو ملتا ہے جو کورونا کے باعث پاکستان آئے تھے اور ابھی تک اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے چین واپس نہیں جا پا رہے۔
کنول جاوید جانان یونیورسٹی آف کیمسٹری اینڈ کیمیکل انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کی طالبہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’دو برس پہلے چھٹیوں میں جب پاکستان آئے تو چینی حکومت نے ویزے کینسل کر دیے۔ ہمارا کام ایسا ہے کہ بغیر لیبارٹری کے ہو ہی نہیں سکتا۔ اپنے پروفیسر سے رابطہ کرتے ہیں تو وہ بھی یہی وجہ بتاتے ہیں کہ جب آپ کا کام ہی مخصوص لیب میں ہونا ہے تو پھر ویزے کھلنے کا انتظار کریں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم متعدد مرتبہ حکومتی سطح پر کوشش کرچکے ہیں لیکن کسی بھی طرح کی کوشش کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ اس سے نہ صرف ہمارا تعلیمی نقصان ہورہا بلکہ وقت ضائع ہو رہا ہے اور ذہنی کوفت اپنی جگہ ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ چینی حکومت سے صرف اتنا معلوم کرلیں کہ کب تک ویزے بحال ہوں گے تاکہ ہمیں پتا تو ہو ناں کہ ہمارے مستقبل کیا ہوگا۔‘
