Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
جمعرات ، 12 جون ، 2025 | Thursday , June   12, 2025
جمعرات ، 12 جون ، 2025 | Thursday , June   12, 2025

چہرے کا پردہ ، احادیث کی روشنی میں

شرعی حجاب کا مطلب یہ ہے کہ عورتیں تمام جسم ڈھانپے ہوئے ہوںکیونکہ عورت تمام کی تمام پردہ اور باعثِ فتنہ ہے
گزشتہ سے پیوستہ
 
ام عدنان قمر۔ الخبر
ایسے ہی چہرے کے پردے کو واجب قرار دینے والوں کا استدلال سورہ الاحزاب کی ان4 آیات سے بھی ہے جن میں سے ایک کو ’’آیتِ حجاب‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ چنانچہ سورہ الاحزاب کی آیت 32اور33 میں ارشادِ الٰہی ہے: اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر تم اللہ سے ڈرتی رہو تو (غیر مردوں سے) نرم لہجے سے بات نہ کرو (اگر ایسا کرو گی تو) جس کے دل میں کھوٹ ہے، اس کے دل میں لالچ پیدا ہوگا اور وہ کوئی غلط توقع کر بیٹھے گا، لہٰذا قاعدے کے مطابق صاف بات کیا کرو اور اپنے گھروں میں جمی رہو اور زمانہ جاہلیت کی طرح بناؤ سنگھار کا اظہار نہ کرو اور نماز قائم کرو، زکات ادا کرو، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت گزاری کرو۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اکرم کی بیویو ں کو ان کا مقام و مرتبہ بتایا ہے، یعنی تمہاری حیثیت اور مرتبہ عام عورتوں جیسانہیں بلکہ اللہ نے تمھیں رسول اللہ کی زوجیت کا جو شرف عطا فرمایا ہے، اس کی وجہ سے تمھیں ایک امتیازی مقام حاصل ہے، چنانچہ انھیں ان کے مقام و مرتبے سے آگاہ کرکے انھیں کچھ ہدایات دی جارہی ہیں۔ اس کی مخاطب اگرچہ ازواجِ مطہراتؓ ہیں، جنھیں امہات المومنین قرار دیا گیا ہے، لیکن اندازِ بیان سے صاف واضح ہے کہ مقصد پوری امتِ مسلمہ کی عورتوں کو سمجھانا اور متنبہ کرنا ہے، اس لیے یہ ہدایات تمام مسلمان عورتوں کے لیے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے جس طرح عورت کے وجود میں مرد کے لیے جنسی کشش رکھی ہے (جس کی حفاظت کے لیے بھی خصوصی ہدایات دی گئی ہیں تاکہ عورت مرد کے لیے فتنے کا باعث نہ بنے) اسی طرح اللہ تعالیٰ نے عورتوں کی آواز میں بھی فطری طور پر دلکشی، نرمی اور نزاکت رکھی ہے جو مرد کو اپنی طرف کھینچتی ہے، اس آواز کے لیے بھی یہ ہدایت دی گئی کہ مردوں سے گفتگو کرتے وقت قصداً ایسا لب ولہجہ مت اختیار کرو جس میں نرمی اور لطافت ہو بلکہ قاعدے کے مطابق کلام کرو تاکہ کوئی بدباطن لہجے کی نرمی سے تمہاری طرف مائل نہ ہو اور اس کے دل میں برا خیال پیدا نہ ہو، بات اگرچہ نرم لہجے سے کرنا منع ہے تاہم زبان سے ایسا لفظ بھی نہیں نکالنا جو معروف قاعدے اور اخلاق کے منافی ہو۔اِنِ اتَّقَیْتُنّ کہہ کر اشارہ کر دیا کہ یہ بات اور دیگر ہدایات متقی عورتوں کے لیے ہیں کیونکہ انھیں ہی یہ فکر ہوتی ہے کہ ان کی آخرت برباد نہ ہوجائے۔ جن کے دل خوفِ الٰہی سے عاری ہیں، انھیں ان ہدایات سے کیا تعلق اور وہ کب ان ہدایات کی پروا کرتی ہیں؟ ٹک کر رہو، کا معنی یہ ہے کہ ضروری حاجت کے بغیر گھر سے باہر نہ نکلو بلکہ گھر کی چار دیواری کے اندر رہ کر امورِ خانہ داری سر انجام دینا ہے۔ اس میں گھر سے باہر نکلنے کے آداب بتلا دیئے کہ اگر باہر جانے کی ضرورت پیش آئے تو بناؤ سنگھار کر کے یا ایسے انداز سے جس سے تمہارا بناؤ سنگھار ظاہر ہو، مت نکلو۔ یوں بے پردہ ہو کر نہ نکلو، جس سے تمہارا سر، چہرہ، بازو اور چھاتی وغیرہ لوگوں کو دعوتِ نظارہ دیں بلکہ خوشبو لگائے بغیر سادہ لباس میں ملبوس اور باپردہ باہر نکلو۔ تَبَرُّجَبے پردگی اور زیب و زینت کے اظہار کو کہتے ہیں۔
قرآن نے واضح کر دیا ہے کہ یہ تبرجِ جاہلیت ہے جو اسلام سے پہلے تھی اور آئندہ بھی جب کبھی اسے اختیار کیا جائے گا تو یہ جاہلیت ہی ہوگی، اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں، چاہے اس کا نام کتنا ہی خوش نما و دل فریب رکھ لیا جائے۔ قرآنی نصوص کے علاوہ چہرے کے پردے کا وجوب احادیث مبارکہ سے بھی ہوتا ہے۔ ذیل میں چند احادیث ملاحظہ ہوں۔ حضرت مغیرہ بن شعبہؓ سے مروی حدیث ہے جس میں وہ اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک عورت سے شادی کا ارادہ کیا اور نبی اکرم سے اس کے بارے میں بات کی۔ آپے پوچھا: کیا تم نے اسے ایک نظر دیکھا ہے؟ انھوں نے عرض کی: نہیں، آپ نے فرمایا: اسے ایک نظر دیکھ لو، یہ تم دونوں کے مابین ازدواجی تعلقات مستقل قائم رہنے کے لیے زیادہ موزوں و مناسب ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں ان کے گھر گیا اور اس کے والدین کو نبی اکرم کا ارشاد سنایا مگر انھیں یہ بات شاید اچھی نہ لگی (کہ میں لڑکی کو دیکھوں) البتہ لڑکی نے بات سن لی اور پردے کی اوٹ سے کہنے لگی کہ اگر واقعی تمھیں نبی اکرمنے اس بات کی اجازت دی ہے تو تم مجھے دیکھ لو ، ورنہ یہ بات کوئی معمولی بات نہیں۔ میں نے اسے دیکھا اور اس سے شادی کرلی۔ میرے دل میں جتنی قدر اس عورت کی تھی، اتنی کسی اور عورت کی نہ ہوسکی۔
اگر اس آیتِ حجاب کے نزول کے بعد صحابیات چہرے کا پردہ نہیں کیا کرتی تھیں تو پھر اس ارشاد کا کیا معنی ہوا؟ حضرت مغیرہؓ والی حدیث کا مفہوم مخالف یہ بنتا ہے کہ جو پیغام نکاح نہ دینے والا ہو، اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ عورت کو دیکھے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب چہرے کا پردہ ہو اور اگر وہ ننگے منہ ہو تو پھر اس حدیث کا کوئی معنی ہی نہیں بنتا۔ معجم طبرانی، طبقات ابن سعد اور مستدرک حاکم میں حدیث ہے جس میں حضرت قیس بن زیدؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم نے ام المومنین حضرت حفصہؓ کو ایک طلاق دے دی تو ان کے دو خالو حضرت عثمان بن مظعونؓ اور حضرت قدامہ بن مظعونؓان کے پاس آئے اور طلاق کے بارے میں ان سے دریافت کیا تو حضرت حفصہؓ نے انھیں بتایا: اللہ کی قسم! ایسا تو نہیں کہ آپ نے مجھ سے جی بھر جانے کی وجہ سے طلاق دی ہو (بلکہ کوئی اور وجہ ہے) اور آپ جب لوٹ کر میرے پاس آئے تو میں نے بڑی چادر اوڑھ کر پردہ کر لیا۔
تب نبی اکرمنے فرمایا کہ میرے پاس حضرت جبریلؑ آئے ہیں اور انھوں نے کہاہے: سیدہ حفصہؓ کی طرف رجوع کر لیں (یعنی انھیں دوبارہ اپنے نکاح میں لوٹا لیں) وہ تو بڑی نفلی روزے رکھنے اور راتوں کا قیام کرنے والی خاتون ہیں اور وہ جنت میں بھی آپ کی بیوی ہوں گی۔ حضرت حفصہؓ کو طلاق دینے کے بعد نبی اکرم کے ان کے پاس آنے پر چادر اوڑھ کر آپ سے ان کا پردہ کرلینا اس بات کا ثبوت ہے کہ نبی کے عہدِ مسعود میں پردہ رائج تھا اور انھوں نے جلباب سے اپنا چہرہ چھپا کر انتہائی واضح انداز سے بتا دیا کہ چہرے کا پردہ واجب ہے اور اگر چہرے کا پردہ ہی نہ ہوتا تو پھر حضرت حفصہؓکے اس فعل کا کوئی معنی ہی نہ تھا، پھر وہ اپنی حالت میں قائم رہتیں۔ خصوصاً جبکہ اندر آنے والا کوئی عام انسان نہیں تھا بلکہ وہ تو محبوبِ الٰہی حضرت محمدمصطفی تھے اور آپ پر ویسے بھی یہ حالت تو کیا عام حالات میں بھی غیر محرم مومن عورت کو دیکھنا حرام نہیں تھا، جیسا کہ حافظ ابن حجرؒ نے ’’فتح الباری‘‘ میں اپنی تحقیق کا نچوڑ ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ہمارے نزدیک یہ بات طے ہے کہ نبی اکرم پر عام لوگوں (مردوں) کے برعکس، غیر محرم مومن عورتوں پر نظر ڈالنا حرام نہیں تھا۔ اس کے باوجود حضرت حفصہؓ کا یہ عمل چہرے کے پردے کے وجوب کی واضح دلیل ہے۔ پردے کے بارے میں رسولِ کریم کی بعض دیگر احادیث بھی ہیں جن سے نہ صرف چہرے کا پردہ ثابت ہوتا ہے بلکہ بعض احادیث سے پردہ نہ کرنے والی خاتون کا گنہگار ہونا بھی ثابت ہوتا ہے، مثلاً: آپe کا ارشادِ مبارک ہے: غیر محرم(مرد کا عورت کو یا عورت کا مرد) کو دیکھنا آنکھ کا زنا ہے۔ جس شریعت نے غیر محرم عورت کا چہرہ دیکھنے کو آنکھ کا زنا قرار دیا ہے، کیا وہی شریعت چہرے کو ننگا رکھنے کی اجازت دے کر اس زنا کو عام کرنے کی اجازت دے سکتی ہے؟ بلاشبہ غیر محرم عورت کو دیکھنے والا مرد بھی گنہگار ہے لیکن وہ عورت جو ننگے چہرے کے ساتھ گھر سے باہر نکل کر غیر محرم مردوں کو دعوتِ گناہ دے گی کیا وہ گنہگار نہیں ہوگی؟ نبی کریم کے ارشادِ مبارک کی روشنی میں اہلِ علم نے عورت کے پاؤں کی پشت کو بھی ستر میں شامل کیا ہے۔غور فرمائیں! جس شریعت نے عورت کے پاؤں کی پشت کو ننگا کرنے کی اجازت نہیں دی، وہ چہرہ ننگا کرنے کی اجازت کیسے دے سکتی ہے؟ پاؤں کی پشت کی نسبت چہرے کا فتنہ تو کہیں بڑا فتنہ ہے۔
آپنے فرمایا:عورت کا سارا جسم ستر ہے۔ ظاہر ہے سارے جسم میں چہرہ بھی شامل ہے، لہٰذا جس طرح چہرے کے علاوہ باقی ستر کو ظاہر کرنے والی عورت گنہگار ہوگی، اسی طرح اپنے چہرے کو ظاہر کرنے والی عورت بھی گنہگار ہوگی۔ نبی رحمت کا ارشادِ مبارک ہے: میرے بعد مردوں کے لیے تمام فتنوں سے بڑھ کر فتنہ عورت کا ہے۔ ذرا غور فرمائیں! عورت کھلے چہرے کے ساتھ گھر سے باہر نکل کر مردوں کے لیے یقینا فتنہ ہے، ایسی ہی عورتوں کے متعلق نبی کا ارشاد ہے ’’فتنہ بننے والی خاتون گنہگار ہے۔‘‘ نبی اکرمe کا ارشاد ہے: جب عورت گھر سے باہر نکلتی ہے تو شیطان اسے نمایاں(خوبصورت) کرکے(مردوں کو) دکھاتا ہے۔ صحابیاتؓ کا طرزِعمل: حجاب کے احکام کی وجہ سے عہدِ نبوی میں تمام صحابیاتؓ چہرے کے پردے کا سختی سے اہتمام کرتی تھیں، چند واقعات پیشِ خدمت ہیں: حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: ہم (صحابیات) رسول اﷲ کے ساتھ احرام میں تھیں، جب سوار ہمارے پاس سے گزرتے تو ہم اپنی چادریں اپنے سروں سے چہروں پر لٹکالیتیں، جب سوار گزر جاتے تو چہرے ننگے کرلیتیں۔ حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ فرماتی ہیں:
ہم (صحابیات) حالتِ احرام میں(اجنبی) مردوں سے اپنے چہرے ڈھانپ لیتی تھیں۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پردے کا حکم ازواجِ مطہراتؓ کے لیے خاص نہیں بلکہ تمام مسلمان عورتوں کے لیے عام ہے، اس لیے صحابیات اس کی پابندی کرتی تھیں۔ حضرت زینب بنت جحشؓکی شادی کے موقع پر حجاب کی آیت نازل ہوئی تو آپنے اپنے10 سالہ پرانے خادمِ خاص حضرت انسؓکو اسی وقت گھر میں داخل ہونے سے روک دیا اور دروازے پر پردہ لٹکا دیا۔دروازے پر پردہ لٹکانے کا مقصد ہی یہی تھا کہ چہرے سمیت سارے جسم کو اجنبیوں سے چھپانا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ باقی جسم پر پہلے ہی کپڑے تھے، پردہ صرف چہرے کے لیے کیا گیا تھا۔ حضرت ام خلادؓ اپنے شہید بیٹے کے بارے میں رسولِ اکرم سے خبر دریافت کرنے حاضر ہوئیں تو اپنے چہرے پر نقاب ڈالے ہوئے تھیں، صحابیاتِ کرامؓ نے دیکھ کر کہا: اس المناک صورتِ حال میں بھی یہ عورت نقاب اوڑھے ہوئے ہے۔
حضرت ام خلادؓنے جواب دیا: مجھ پر بیٹے کے قتل ہونے کی مصیبت آئی ہے، میری شرم و حیا پر مصیبت نہیں آئی۔ یہ تمام احادیث اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ ازواجِ مطہرات سمیت تمام صحابیات حجاب کا سختی سے اہتمام فرماتی تھیں، حتیٰ کہ رسولِ اکرم سے بھی پردہ کیا کرتی تھیں، اگر پردہ مستحب ہی تھا تو رسولِ اکرم سے پردہ کرنے کا کیا مطلب ہے؟ چند فتاویٰ: کتاب وسنت کے دلائل اور عہد نبوی میں صحابیات کے تعامل کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اہلِ علم نے چہرے کے پردے کو واجب قرار دیا ہے،اس سلسلے میں ائمہ کرامؒ اور مفتیان عظام کے چند فتاویٰ پیشِ خدمت ہیں: ائمہ اربعہ میں سے امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل نے چہرے اور ہتھیلیاں کھولنے کی مطلقاً اجازت نہیں دی۔ امام ابو حنیفہ نے فتنے کا خوف نہ ہونے کی شرط کے ساتھ چہرہ اور ہتھیلیاں کھولنے کی اجازت دی ہے۔ چونکہ عادتاً یہ شرط مفقود ہے لہٰذا فقہائے حنفیہ نے بھی غیر محرموں کے سامنے چہرہ اور ہتھیلیاں کھولنے کی اجازت نہیں دی۔ امام ابن تیمیہa فرماتے ہیں: جلباب کے معنی دوہری چادر کے ہیں جو سر سمیت پورے بدن کو ڈھانپ لے اور عبیدہ کے بقول عورت یہ چادر اس طرح اوڑھے کہ آنکھ کے سوا جسم کا کوئی حصہ ظاہر نہ ہو۔ ’’ شرعی حجاب کا مطلب یہ ہے کہ عورتیں تمام جسم ڈھانپے ہوئے ہوںکیونکہ عورت تمام کی تمام پردہ اور باعثِ فتنہ ہے۔ اسی طرح شیخ محمد بن صالح العثیمین ’’فتاویٰ برائے خواتین‘‘ میں لکھتے ہیں: عورت کے لیے تمام واجب الستر اعضائے بدن کا ڈھانپنا لازم ہے، ان اعضا میں سے سب سے مقدم اور اولیٰ چہرے کا پردہ ہے اس لیے کہ چہرہ فتنے و رغبت کا مقام و محل ہے، لہٰذا عورتوں کا اجنبی لوگوں سے چہرے کا پردہ کرنا واجب ہے۔

شیئر: