Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
جمعہ ، 12 ستمبر ، 2025 | Friday , September   12, 2025
جمعہ ، 12 ستمبر ، 2025 | Friday , September   12, 2025

”سگے پھوپھا“

اگر سرسری انداز میں دیکھا جائے تو کمپنی کے تیار کردہ مخصوص صابونی برادے کی فروخت میں اضافہ کرنے کی کوشش ہے ، میری نظر میں یہ ”ساسیات، بہوئیات اور تکنالوجیات“کا حَسین ترین مرقع ہے
شہزاد اعظم
کل ہم اپنے سگے پھوپھا سے ملنے ٹیکسی میں بیٹھ کر ان کے گھر پہنچے ۔ ٹیکسی والے کو پورے 15ریال یعنی 427 روپے50پیسے پاکستانی ادا کئے ۔ دروازے پر نصب گھنٹی بجا کر اپنی آمدکی اطلاع دی۔سگے پھوپھا نے دروازہ کھولا ، ہمیں دیکھ کر ان کی باچھیں کھِل گئیں۔ لپکنے کے انداز میں آگے بڑھ کرہمیں گلے لگایا اور ”سُریلی“آواز میں اپنی بیگم سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ”دیکھو دیکھو کون آیا، کون آیا، کون آیا۔“سگی پھوپھی جان دوڑتی ہو ئی کمرے سے برآمد ہوئیںمگرہمیں دیکھتے ہی ان کی تیوری پر ساڑھے 3بل نمودار ہوگئے۔ ہم نے زمینی حقائق بھانپتے ہوئے پھوپھا سے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ آپ کی اہلیہ محترمہ ، بھتیجے کی کسی مہمان نوازی کے موڈ میں نہیں۔سگے پھوپھا نے کہا کہ آپ فکر نہ کریں، میں ایسی چال چلوں گا کہ چٹکی بجاتے ہی بیگم صاحبہ ہماری ہاں میں ہاں ملانے لگیں گی۔ یہ کہہ کر انہوں نے اپنی دلہن بیگم سے کہا کہ چلیں، تیار ہوجائیں آج ہم آپ کے بھتیجے کے ساتھ ”اربعا نجوم “ ہوٹل میں عشائیہ کریں گے۔سگی پھوپھی تو جیسے اسی پیشکش کی منتظر تھیں، فوری عبائے میں ملفوف ہو کر اپنے شوہر کی پراڈو میں سوار ہو گئیں۔ کچھ ہی دیر کے بعد ہم ایک شاندار ہوٹل کے ”قسم العائلات“ میں متمکن تھے۔ دیوار پر ایک جانب ”جناتی“ ٹی وی لٹکا ہوا تھاجس پر ایک مقبول پاکستانی چینل لگا ہوا تھا۔ ہم توسگی پھوپھی جان سے گفتگو میں مگن تھے اور پھوپھا، ٹی وی پربار بار دکھائے اور دہرائے جانے والے ”دلچسپ اور غیر دلچسپ“ ہر اشتہارات کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہے تھے ۔اسی ا ثناءمیں ایک ”صابونی برادے“ یعنی ”ڈٹرجنٹ پاﺅڈر“کا اشتہار ٹی وی اسکرین پر عیاں ہوا، اسے دیکھ کر پہلے تو پھوپھا مسکرائے پھر واہ واہ کہنے پر مجبور ہوگئے۔ ہم اس ناقابلِ یقین ”پھوپھائی کیفیت“ کو دیکھ کر دانتوں میں ا نگلی دبانے پر مجبور ہوگئے۔سگی پھوپھی نے ہمیں استعجاب سے باہر نکالنے کے لئے اپنے ”دولہا“ سے استفسار کر ہی لیا کہ ”کیوں جی! اس صابونی تشہیر میں ایسی کیا بات تھی جس پر آپ نہ صرف شاداں و فرحاں ہوئے بلکہ بن مانگے ہی داد و تحسین کے ڈونگرے بھی برسانے لگے؟“سگے پھوپھا نے ہماری سگی پھوپھی کوجس قسم کا جواب دیا وہ محض ”بیان“ نہیں بلکہ ”فرمان“ کہلانے کا مستحق تھا۔ ہماری دلی تمنا ہے کہ یہ فرمان ہم من و عن اپنے قارئین تک پہنچا دیں۔ التجاءہے کہ ہر ہر لفظ پر غورفرمائیے گا، ورنہ پچھتائیے گا۔سگے پھوپھا نے فرمایا کہ:
”بھتیجے میاں! ہم آپ کی سگی پھوپھی سمیت ،روزِ اول سے ہی ہر کس و ناکس کو، ہرشے کو وسیع تر تناظر میں دیکھنے، پرکھنے اور سمجھنے کے عادی ہیں۔ اب اس اشتہار کو ہی دیکھ لیجئے جس میں ایک ماں اپنے بچے کو اسکول لے جانے کےلئے جلدی جلدی کا ر کی جانب بڑھتی ہے اور بیٹے سے کہتی ہے کہ جلدی چلو۔ اسی دوران بیٹا اپنی دادی کو دیکھتا ہے جس کے ہاتھ سے آم اور ناشتے دان پھسل کر گر جاتاہے، بچہ اپنی قمیص اُتار کر تمام آم اس میں باندھ کر دادی کے حوالے کر دیتا ہے۔وہ اسے دعائیں دیتی ہیں مگر قمیص پر لگنے والے داغوں سے پریشان ہو جاتی ہیں۔ اتنے میں پوتے کی ماں وہاں آتی ہے اور کہتی ہے کہ اس ”صابونی برادے“ سے تمام داغ صاف ہو جائیں گے۔
اگر اسے سرسری انداز میں دیکھا جائے تو یہ ایک کمپنی کے تیار کردہ مخصوص صابونی برادے کی فروخت میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرنے کی ایک کوشش ہے مگر میری نظر میں یہ ”ساسیات، بہوئیات اور تکنالوجیات“کا حَسین ترین مرقع ہے جس میں ہمارے معاشرے کی بھرپور عکاسی بھی کی گئی ہے۔میری بات کو سمجھنے کےلئے اس اشتہار کو دوبارہ دیکھئے کہ یہ معمر خاتون جو بچے کی دادی توبعد میں بنی، اپنی بہو کےلئے انتہائی ”بھیانک ساس“ پہلے سے ہے۔بہو کے گھر میںقدم رکھنے کے بعد سے ہی اس ساس کی یہ کوشش رہی ہے کہ انتہائی معصوم و مظلوم بن کے بہو کے جذبات و احساسات کو پامال کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیاجائے اور پھر جب بہو سیخ پا ہو، جھنجلاہٹ کا اظہار کرے تو نہ صرف اس کو طعنے دے بلکہ اپنے بیٹے کے کان بھی بھرے۔اشتہار میں جو مناظر کیمرے کی آنکھ نے مقید کئے ان میں بھی اس ”بڑھیاساس“ نے یہی کیا۔ اسے خبر تھی کہ پوتے کو 7بجے اسکول پہنچنا ہے، بہو اسے 6.45پراسکول چھوڑنے جائےگی چنانچہ وہ6.40پر ہی2 کلو سندھڑی آم اورخالی ناشتے دان پکڑ کر گھر کے باہر سڑک پر کھڑی ہوگئی۔ جیسے ہی 6.43پر اس کی بہو بچے کو لے کر تیز تیز قدم بڑھاتے ہوئے گھر سے باہر کھڑی گاڑی کی جانب بڑھی، اس ”ساس“ نے ناشتے دان اور آموں کا لفافہ دونوں ہی سڑک پر گرا دیئے کیونکہ اسے اچھی طرح علم تھا کہ ننھا پوتا اس سے بے انتہاءمحبت کرتا ہے اور وہ دادی کی مدد کو ضرور دوڑے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اس نے پوتے کوسڑک پر گرے ہوئے آم سمیٹنے سے نہیں روکاتاکہ بہو کادل جلا سکے، اسکے پوتے کے کپڑے گندے ہو رہے تھے مگر دادی نے اسے منع نہیں کیا تاکہ بہو کے جذبات کا ستیا ناس کر سکے، پوتے نے آم سمیٹنے میں ناکامی کے بعد اپنی قمیص اتار کر اس میں آم باندھنا شروع کئے تو بھی دادای نے ایک لفظ نہیں کہا تاکہ بہو کی جانب سے بچے کو تیار کر کے وقت پر اسکول لے جانے کی تمام محنت پر پانی پھرا جا سکے۔دوسری جانب اس بڑھیا نے اپنے پوتے کے دل میں اپنی محبت بڑھانے کےلئے ہنستے ہوئے انتہائی پیار کے ساتھ اسے شاباش دی کہ تم نے مشکل کا حل تو فوراً نکال لیا۔اب اس نے ” ساسیانہ سیاست“کا استعمال کرتے ہوئے انتہائی کسیلا منہ بنا کر ، عجب ”تعزیتی“ انداز میں بہو سے کہا کہ ”تمہارے بیٹے کی قمیص پر لگے یہ داغ آسانی سے نہیں چھوٹیں گے کیونکہ ساس کو اپنا دور یاد تھا جب لباس پر پھلوں ، سبزیوں یا مسالے سے لگے داغوں کو صاف کرنے کےلئے ڈنڈوں سے پیٹنا اور ہاتھوں سے رگڑنا پڑتا تھامگر وہ داغ ایسے ضدی ہوتے تھے کہ 10مرتبہ کی دھلائی کے بعدبھی غائب نہیں بلکہ مدھم ہو تے یا پھیکے پڑ جاتے تھے۔ ساس کو یہ خبر نہیںکہ آج ٹیکنالوجی کتنی ترقی کر چکی ہے چنانچہ بہو، آموں کے داغ کے حوالے سے اپنی ساس کے بیان کو مکمل ہونے سے پہلے ہی یکسر مسترد کر دیتی ہے اور کہتی ہے کہ کیوں نہیں، یہ” صابونی برادہ ہے ناں“۔ ساسیانہ چال کو پامال کرتے ہوئے بہو کے الفاظ تو معیاری ہوتے ہیںمگر وہ دل ہی دل میں سوچتی ہے کہ آخر کو ہے نہ وہی ”لکیر کی فقیرنی“، اسے کیا خبرکہ آج کل تو کردار پر لگے داغ صاف کرنے کی ٹیکنالوجی بھی زیر استعمال ہے ، یہ بڑھیا ابھی تک کپڑوں پر لگنے والے داغ سے پیچھا چھڑانے کو ہی رو رہی ہے۔“
ہم نے کہا کہ ”پھوپھا جان! یہ بتائیے کہ اس میں معاشرے کی عکاسی کہاں ہے جو آپ کہہ رہے تھے؟“ سگے پھوپھا نے فرمایا کہ میاں بھتیجے! آپ میرا منہ کیوں کھلواتے ہیں، آپ تو خود ابلاغی ذریعے سے وابستہ ہیں۔ آپ کو علم نہیں کہ ”حزبِ مخالفین “ اس اشتہار والی بڑھیا کی طرح کہتے ہیں کہ ”ماڈل“ نے ،” ڈاکٹر“ نے ،”سابق ذمہ دار“ نے ملک و قوم کو لوٹا، خزانے کی رقوم بیرون ملک منتقل کیں۔ یہ سب لوگ داغدار ہیں۔ ان کے مقابلے میں”حزبِ معافقین“ جدید ٹیکنالوجی کی عادی بہو کی طرح کہتے ہیں کہ کیسا داغ، کون سا داغ،ان کے اختیار میں ”صرف ای سی ایل“ ہے ناں۔پانامہ سے ہم نہیں ڈرتے ،دیکھنا ہم پانامہ جا کر، گھوم گھام کر بصد عزت لوٹیں گے کیونکہ ملک میں جمہوریت ہے۔
******

شیئر: