چھ ماہ سے تنخواہوں کی عدم ادائیگی، چین میں افغان سفیر مستعفی
جاوید احمد قایم نے افغانستان کی وزارت خارجہ کو یکم جنوری کو لکھا گیا خط، پیر کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا۔ (فوٹو: ٹوئٹر جاوید احمد قایم)
چین میں افغانستان کے سفیر نے تنخواہوں کی عدم ادائیگیوں پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پیر کو جاوید احمد قایم نے اپنے بعد عہدہ سنبھانے والے شخص کو ایک خط میں آگاہ کیا کہ سٹاف کو کئی ماہ سے تنخواہیں نہیں ملی ہیں اور فون کالز کے جواب دینے کے لیے صرف ایک ریسپشنسٹ رہ گیا ہے۔
انہوں نے ٹوئٹر پر اس بات کی تفصیل بتائی کہ کیسے گذشتہ برس اگست میں طالبان کے اقتدار سنبھانے کے بعد انہیں سٹاف کو ادائیگیوں کے لیے سفارت خانے کے بنک اکاونٹ سے پیسے نکلوانے پڑے۔
جاوید احمد قایم نے افغانستان کی وزارت خارجہ کو یکم جنوری کو لکھا گیا خط، پیر کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا۔
خط میں انہوں نے کہا کہ ’چونکہ ہمیں گذشتہ چھ ماہ سے کابل سے تنخواہیں موصول نہیں ہوئیں، اس لیے ہم نے مالی مسائل کے حل کے لیے سفارت کاروں کی ایک کمیٹی مقرر کی۔‘
’اس کے باوجود انہوں نے اپنے بعد آنے والوں کے لیے فنڈز چھوڑے ہیں۔‘
’آج کے دن یکم جنوری 2022 تک اکاؤنٹ میں تقریباً ایک لاکھ ڈالر موجود ہیں۔‘
تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ آگے کہاں جا رہے ہیں۔
مشکل حالات میں کام کرتے سفارت خانے کی تصویر کشی کرتے ہوئے جاوید احمد قایم کے خط میں بتایا گیا ہے کہ انہوں نے سفارت خانے کی پانچ گاڑیوں کی چابیاں اپنے دفتر میں چھوڑ دی ہیں اور تمام سفارت کاروں کے چلے جانے کے بعد سوالات کے جوابات دینے کے لیے ایک مقامی شخص کو رکھا گیا ہے۔

افغانستان کے متعدد سفارت خانے سفارتی غیریقینی کا شکار ہیں، کیونکہ ان کا عملہ طالبان کی جانب سے ہٹائی جانے والی مغرب نواز حکومت کا وفادار ہے۔
جاوید احمد قایم کے مطابق سقوط کابل کے بعد بہت سارے افغان سفارت کاروں نے بیجنگ میں اپنے عہدوں کو چھوڑ دیا تھا۔
انہوں نے ایک ٹویٹ میں اپنے استعفے کو ’ایک باوقار ذمہ داری کا اختتام‘ قرار دیا۔
جاوید احمد قایم نے اپنے خط میں مزید کہا کہ ’مجھے یقین ہے کہ جب نئے آنے والے جناب سادات بیجنگ پہنچیں گے تو وہاں کوئی سفارت کار نہیں ہوگا۔‘
خط کے مطابق چین کو ’اس تمام صورتحال سے آگاہ کر دیا گیا تھا۔‘
فوری طور پر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ ان کی جگہ آنے والا شخص کہاں ہے، یا انہیں کس نے مقرر کیا ہے اور کابل میں طالبان حکام کی جانب سے فوری طور پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔