یکم دسمبر 2020 کو سندھ ہائی کورٹ میں حویلیاں طیارہ حادثہ کیس کی سماعت کے دوران پی آئی اے کے بدقسمت طیارے پی کے 661 کے پائلٹ احمد منصور جنجوعہ کی والدہ شاہدہ منصور جنجوعہ عدالت کے سامنے یہ کہتے ہوئے رو پڑیں کہ ’میرے بیٹے کو خراب جہاز اڑانے پر مجبور کیا گیا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میرے بیٹے نے متعدد بار پی آئی اے حکام کو آگاہ کیا تھا کہ اے آٹی آر طیارہ خراب ہے اور اس کا کچھ کام ہونے والا ہے۔ وہ گھر کا واحد کفیل تھا، اس لیے کہتا تھا کہ ملازمت کی مجبوری ہے کہ خراب طیارہ اڑانا پڑ رہا ہے۔‘
سات دسمبر 2016 کو چترال سے اسلام آباد کے لیے اڑان بھرنے والے طیارے کے پائلٹ احمد منصور جنجوعہ کی والدہ نے چترال ایئرپورٹ پر اس صبح ہونے والی اس تکرار کی یاد تازہ کر دی تھی جس کا تذکرہ بعد ازاں طیارہ حادثے کی رپورٹ اور سول ایوی ایشن اور پی آئی اے حکام کے درمیان باہمی الزام تراشیوں کے ذریعے بھی سامنے آئی تھی۔
مزید پڑھیں
-
کراچی میں طیارہ گرنے کے بعد کے مناظرNode ID: 480576
-
کون سا جہاز کب اور کہاں گرا؟Node ID: 480596
-
’گرنے والے جہاز میں فنی خرابی نہیں تھی‘Node ID: 486271
بتایا جاتا ہے کہ پی آئی اے طیارہ جب پشاور سے چترال پہنچا تھا تو راستے میں اس میں فنی خرابی پیدا ہو چکی تھی لیکن پائلٹ احمد منصور کی جانب سے توجہ مبذول کرانے اور طیارہ اڑانے سے انکار کے باوجود انھیں مجبور کیا گیا کہ وہ پی کے 661 کو اسلام آباد لے کر جائیں۔ وہ روانہ تو ہوئے لیکن اسلام آباد پہنچنے کے بجائے ایبٹ آباد کی تحصیل حویلیاں کے قریب دونوں انجن بند ہونے سے طیارہ گرکر تباہ ہو گیا اور عملے کے پانچ افراد سمیت 47 افراد ہلاک ہوئے۔
اس سے قبل چند ہی برسوں کے دوران اسلام آباد آنے والا ایئر بلیو کا طیارہ اور بھوجا ایئر لائن کا طیارہ حادثے کا شکار ہو کر گر چکے تھے۔ جب معلوم ہوا کہ حویلیاں میں گرنے والے طیارے میں ملک کے نامور نعت خواں اور ماضی کے معروف گلوکار جنید جمشید بھی اسی طیارے میں سفر کر رہے تھے تو دنیا بھر کی توجہ اس جانب مرکوز ہو گئی۔
ایسے وقت میں جب طیارے کے پائلٹ طیارے کی فنی خرابی کی بنیاد پر طیارہ اڑانے سے انکار کر رہے تھے عین اس وقت جنید جمشید چترال میں اپنے ساتھی اور سابق کرکٹر سعید انور کے ساتھ مختلف مقامات پر تبلیغی دورے پر تھے۔ انھیں نہیں معلوم تھا کہ آج کے دن کا ایک ایک لمحہ ان کو موت کی طرف لے جا رہا ہے۔

سات دسمبر کو چار بج کر 16 منٹ پر حادثے کا شکار ہونے والے طیارے کی سیٹ نمبر تھری سی کی مسافر عائشہ عثمان، جنھوں نے اپنی زندگی کے سفر کا آغاز کیا ہی تھا کہ یہ سفر ان کا آخری سفر ثابت ہوا۔
عائشہ عثمان کا تعلق چترال سے تھا اور وہ قائداعظم یونیورسٹی سے ایم فل کرنے والی اپنے خاندان کی پہلی لڑکی تھیں۔ ایم فل کرنے کے چند دن بعد ہی ان کی شادی کینیڈا میں مقیم اپنے کزن رحیم سے ہوئی جو شادی کے فوراً بعد کینیڈا جا کر اپنی دلہن کے پی ایچ ڈی میں داخلے کے لیے تگ و دو میں مصروف ہو گئے تھے۔
عائشہ کا یہ سفر بھی اسی کوشش کا حصہ تھا کیونکہ وہ شوہر کے کہنے پر ڈگری نکلوانے اپنی مادر علمی قائد اعظم یونیورسٹی آ رہی تھیں۔ ان کی والدہ نہیں چاہتی تھیں کہ وہ اس سفر پر روانہ ہوں اور ان کا یہ سفر آخری ثابت ہوا۔
پرواز پی کے 661 کے حادثے کو آج پانچ سال مکمل ہو گئے ہیں۔ یہ حادثہ جنید جمشید سمیت پائلٹ احمد منصور جنجوعہ اور عائشہ عثمان جیسی کئی قیمتی جانوں کو نگل گیا۔
