جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے غیر متوقع اعلان کے بعد جمعے کو سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن کی جانب سے بھرپور احتجاج کی ہر کسی کو توقع تھی۔
شاید یہی وجہ تھی کہ دونوں ایوانوں میں حکومتی ارکان اور وزرا کی تعداد انتہائی کم تھی اور دونوں ایوانوں کے اجلاس اپوزیشن کے مختصر احتجاج کے بعد کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے ملتوی کر دیے گئے۔
قومی اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی زیر صدارت شروع ہوا تو معلوم ہوا کہ اجلاس اگرچہ جمعے کی شام کے بعد بلائے گئے تھے تاہم اپوزیشن بھرپور تیاری کے ساتھ اجلاس میں پہنچی ہے۔
مزید پڑھیں
-
انتخابی اصلاحات پر حکومت اور اپوزیشن کی کمیٹی کیوں نہ بن سکی؟Node ID: 615231
-
کیا پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا دیگر ممالک سے موازنہ درست ہے؟Node ID: 615561
-
پاکستان میں پیٹرول مسلسل مہنگا، نئی قیمت 145 روپے فی لیٹر مقررNode ID: 615591
اپوزیشن ارکان کے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈز تھے جن پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں رات گئے کیے گئے اضافے کو واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
اجلاس کے آغاز کے ساتھ ہی مسلم لیگ ن کے پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
انھوں نے کہا کہ ’رات کے اندھیرے میں پیٹرول کا بم گرایا گیا ہے۔ ریلیف پیکج کی بالکل سمجھ نہیں آئی۔ مہنگائی آسمانوں سے باتیں کررہی ہے۔ حکومت کو عوام کے دکھ درد کا بالکل احساس نہیں۔ 160 روپے کلو چینی کی قیمت ہوگئی ہے۔ یہ کیسی حکومت ہے کون سے وعدے ہیں؟‘
انھوں نے کہا کہ ’وزیراعظم کی چار قسم کی تقاریر سوشل پر چل رہی ہیں۔ عوام کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔ 2018 کا الیکشن عوام کے ساتھ تاریخی دھوکہ تھا۔ عوام کی تکالیف کم کی جانا چاہیے تھیں۔ یہ ایوان اس مہنگائی کا نوٹس لے۔ ملک کس کے حوالے کردیا گیا۔ ملک کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ ہماری ذمہ داری ہے کہ پارلیمان نوٹس لے۔‘
خواجہ آصف نے کہا کہ ’چینی اور گندم کے نام پر فراڈ ہوئے ہیں۔ ان فراڈ کی رپورٹس پر کیا عمل درآمد ہوا ہے؟ اس وقت ملک کے وجود کو بھی خطرہ ہے۔ کل تک جو ان کے ہیرو تھے آج یہ ان کے ساتھ خفیہ معاہدے کرتے ہیں۔ جو خفیہ معاہدہ ہوا اس کے بعد حکومت کے پلے کیا رہ گیا ہے؟ جو معاہدے ہوئے ان پر ایوان میں بحث کرائی جائے اور معاہدے ایوان میں پیش کیے جائیں۔‘

خواجہ آصف کے خطاب کے دوران اپوزیشن بالخصوص خواتین ارکان پلے کارڈ اٹھائے ان کے عقب میں کھڑی احتجاج کرتی رہیں۔
خواجہ آصف کے بعد ڈپٹی سپیکر نے مائیک حکومتی رکن اکرم چیمہ کے حوالے کیا تو اپوزیشن ارکان نے احتجاج کرتے ہوئے نعرے لگانا شروع کر دیے۔ اپوزیشن نے جب دیکھا کہ سپیکر احتجاج کا نوٹس نہیں لے رہے تو پیپلز پارٹی کی شازیہ مری نے کورم کورم کے نعرے بلند کیے۔
ان کے نعرے سن کر مسلم لیگ ن کے رہنما رانا تنویر نے مائیک مانگا۔ مائیک ملنے پر انھوں نے کورم کی نشان دہی کر دی۔ گنتی کرنے پر کورم کم نکلا جس پر اجلاس کی کارروائی معطل کر دی گئی تاہم تھوڑی دیر بعد اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو پھر بھی کورم پورا نہ ہونے پر اجلاس پیر کی شام چھ بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔
اجلاس میں وزیراعظم اور وزرا کے علاوہ قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری بھی شریک نہیں تھے۔
دوسری جانب ایوان بالا کا اجلاس چیئرمین سینیٹ کی زیر صدارت شروع ہوا تو قائد حزب اختلاف سید یوسف رضا گیلانی نے مختصر نوٹس پر اجلاس بلانے اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر احتجاج کیا۔
انھوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’اجلاس کا گزشتہ روز شام سات بجے علم ہوا۔ تین سینیٹرز کراچی چلے گئے تھے۔ اتنا وقت تو دیا جائے کہ لوگ پارلیمنٹ آ سکیں۔ ایجنڈا آج صبح ملا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’وزیراعظم نے یکم نومبر کو اوگرا کی طرف سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے کی تجویز کو مسترد کیا۔ وزیراعطم نے قوم سے خطاب میں کہا کہ پیٹرول کی قیمت بڑھ سکتی ہے۔ اور اڑتالیس گھنٹے میں پیٹرولیم کی قیمت بڑھ گئی ہے۔ وزیراعظم نے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا، بہت اچھا کیا۔ لیکن اب پیٹرول کی قیمت میں اضافے سے سارا ریلیف ختم ہو گیا۔‘

پیپلز پارٹی کے سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ ’کل رات عوام پر شب خون مارا گیا۔ ایوان کی کارروائی ایسے چل رہی ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ معمول کی کارروائی معطل کریں، عوام کے مسائل پر بات کریں۔ عام آدمی کی زندگی تباہ ہو گئی اور ہم ایوان کی کارروائی چلا رہے ہیں۔ ایوان کی کارروائی معطل کرکے پیٹرول مصنوعات کی قیمت میں اضافے پر بات کی جائے۔‘
چیئرمین نے سینیٹ میں معمول کی کارروائی معطل کرتے ہوئے مہنگائی اور پیٹرول قیمتوں میں اضافے پر بحث کا آغاز کر دیا۔
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ ’سب سے بڑا ریلیف پیکج ہو گا کہ مہنگائی سرکار سے نجات مل جائے۔ انقلاب فرانس سے سبق سیکھ لو، آپ ملک کو اس طرف لے جا رہے ہیں۔ ڈرو اس وقت سے جب بھوکے ننگے نوجوان ایوانوں کا رخ کریں گے۔ اپوائشن احتجاج کرے، واک آوٹ کرے، عوام کے دکھ درد کی بات کرے۔‘
حکومت کی جانب سے سینیٹ میں قائد ایوان ڈاکٹر شہزاد وسیم نے اپوزیشن کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’اپوزیشن کو بھی معلوم ہے کہ پیٹرول کی قیمت میں کیوں اضافہ کیا گیا۔ حکومت کے لیے سب سے مشکل فیصلہ ہوتا ہے جب پیٹرول کی قیمت بڑھانی پڑتی ہے۔ دنیا میں پیٹرول کی قیمت میں سو فیصد اضافہ ہوا ہے اور پاکستان میں تیس فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’حکومت اپنی ذمہ داری سے غافل نہیں ہے۔ ہم نے اس مہنگائی کے خلاف چھت بھی اور چھتری بھی فراہم کی ہے۔ آج تک اتنا بڑا ریلیف پیکج نہیں آیا۔ کہا جا رہا ہے کہ رات میں شب خون مارا گیا۔ اس ملک میں مہنگائی کی تاریخ رہی ہے۔ ملک میں مہنگائی کا سب سے پہلا طوفان 1970 میں آیا تھا۔ ان کے بیان پر اپوزیشن ارکان کے قہقہے نکل گئے۔‘
سینیٹ میں قائد ایوان نے کہا کہ ’بھٹو نے جلسے میں کہا تھا کہ مہنگائی ہے، میں کیا کروں۔ اس وقت کے وزیراعظم کو کس نام سے پکاریں گے؟ اس پر اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا۔‘
