پاکستان میں احتساب کا ادارہ قومی احتساب بیورو (نیب) اپنے قیام سے اب تک اکثر و بیشتر تنازعات میں گھرا رہا ہے۔ فوجی دور میں اس پر الزام لگتا ہے کہ یہ سیاست دانوں کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے استعمال ہوتا ہے جبکہ جمہوری ادوار میں حزب اختلاف کی جانب سے اسے سیاسی انتقام کا ذریعہ قرار دیا جاتا ہے۔
مزید پڑھیں
سپریم کورٹ اب تک تین چیئرمین نیب اور ایک قائم مقام چیئرمین کی تقرری کو غیر قانونی کہہ کر کالعدم قرار دے چکی ہے۔ جن میں دو چئیرمینوں کی تقرری غیر قانونی قرار دیے جانے کی وجہ وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کے درمیان مشاورت مکمل نہ ہونا قرار دی گئی۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ ان میں سے ایک پیپلز پارٹی کے دور میں تعینات ہونے والے چئیرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ سید دیدار حسین شاہ کی تقرری کو موجودہ چئیرمین نیب جسٹس جاوید اقبال نے کالعدم قرار دے کر عہدے سے فارغ کر دیا تھا۔ جسٹس جاوید اقبال اس وقت سپریم کورٹ کے سینیئر جج تھے۔
سیف الرحمان کا متنازع احتساب
نیب کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو نیب کی موجودہ شکل سے پہلے سابق وزیر اعظم نواز شریف نے صدر فاروق لغاری کے احتساب کمیشن کو ختم کر کے احتساب بیورو قائم کرکے اپنے قریبی ساتھی سینیٹر سیف الرحمان کو اس کا سربراہ بنا دیا۔
ان پر الزام لگا کہ انھوں نے بے نظیر بھٹو کو انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے ان کے شوہر آصف زرداری کے خلاف کرپشن کے مقدمات قائم کیے اور جسٹس قیوم کے ساتھ مل کر انہیں سزا دلوائی۔ جسے سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دے کر نئے سرے سے تحقیقات کا حکم دیا تھا۔
یوں احتساب کے آغاز ہی متنازع ہوگیا۔
’چیئرمین نیب کی تقرری پر تنازع سے احتساب مشکوک‘
پرویز مشرف نے نواز شریف کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا تو انہوں نے احتساب بیورو کو قومی احتساب بیورو کا نام دیا۔ ان کے احتساب بیورو کو سیاسی جماعتیں اب بھی وفاداریاں تبدیل کرنے والا ق لیگ اور پٹریاٹ گروپ کا خالق ادارہ قرار دیتی ہیں۔
سابق وزیر قانون ڈاکٹر خالد رانجھا کے مطابق ’نیب کا احتساب کا نظام اور اس کے سربراہوں کی تقرری متنازع رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلوں کے ذریعے چیئرمین نیب کی تقرری کو بارہا کالعدم قرار دے چکی ہے۔‘
اردو نیوز سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ 'یہ سچ ہے کہ نیب کے حوالے سے بہت سے تنازعات ہیں۔ نیب کا اپنا کردار اس کے حوالے سے سپریم کورٹ کے متعدد بینچوں کے ریمارکس اور پھر نیب چیئرمین کی تعیناتی کے وقت ہر دفعہ تنازع نہ صرف نیب بلکہ احتساب کے عمل کو بھی مشکوک بنا دیتا ہے۔'
پرویز مشرف رخصت ہوئے تو ملک میں 11 سال بعد جمہوری حکومت آئی۔ ملک میں عدلیہ بحالی کے بعد سپریم کورٹ سے تاریخی فیصلے سامنے آ رہے تھے کہ این آر او کو کالعدم قرار دیے جانے والے فیصلے کے تحت اس وقت کے چئیرمین نیب نوید احسن کو بھی سپریم کورٹ نے ہٹانے کا حکم دے دیا۔ وہ سپریم کورٹ کی جانب سے ہٹائے جانے والے پہلے چیئرمین نیب تھے۔
اس سے پہلے کہ حکومت نیا چیئرمین نیب مقرر کرتی حکومت نے نیب کے جاوید قاضی کو قائم مقام چیئرمین نیب مقرر دیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں بینچ نے انہیں اس بنیاد پر غیر قانونی قرار دے کر عہدے سے ہٹا دیا کہ نیب آرڈیننس میں قائم مقام چیئرمین کا عہدہ موجود ہی نہیں ہے۔
جسٹس جاوید اقبال کا ایک تین سطری فیصلہ
