Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
ہفتہ ، 26 جولائی ، 2025 | Saturday , July   26, 2025
ہفتہ ، 26 جولائی ، 2025 | Saturday , July   26, 2025

افغانستان سے پاکستانی روپے میں تجارت کے اثرات کیا ہوں گے؟

افغانستان پاکستان کے لیے ایک بڑی برآمدی منڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ فائل فوٹو: روئٹرز
پاکستانی تاجروں نے حکومت کی جانب سے افغانستان کے ساتھ پاکستانی کرنسی میں تجارت کرنے کے فیصلے کو سراہا ہے اور کہا ہے کہ اس اقدام سے باہمی تجارت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور پاکستانی کی افغانستان کے لیے برآمدات میں اضافہ ہوگا۔
پاکستان کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے اسلام آباد میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں بریفنگ کے دوران بتایا تھا کہ کئی ممالک نے افغانستان کے مالی ذخائر کو منجمد کر دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہاں ڈالر کی کمی کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے اس لیے افغانستان کے ساتھ تجارت ڈالر کے بجائے پاکستانی روپے میں کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
افغانستان پاکستان کے لیے ایک بڑی برآمدی منڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت کا سالانہ حجم ایک ارب ڈالر سے زائد ہے جس میں پاکستانی برآمدات کا حصہ 80 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔
اسلام آباد میں وزارت تجارت کے شعبہ ٹریڈ ڈپلومیسی کے ایک عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ  افغانستان کے ساتھ پاکستانی روپے میں تجارت کرنے سے متعلق اصولی فیصلہ کر لیا گیا ہے مگر ابھی تک باقاعدہ سٹیچوٹری ریگولیٹری آرڈرز (ایس آر او) جاری نہیں کیے گئے۔
عہدیدار نے بتایا کہ ابتدائی طور پر جلد خراب ہونے والے سامان (پھل، سبزیاں، ڈیری پراڈکٹس اور گوشت ) کی افغانستان برآمد پاکستانی روپے میں کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے مگر بعد میں اس میں مزید اشیا بھی شامل کی جا سکتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وزارت تجارت اس سلسلے میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری، پاک افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس، کوئٹہ، چمن، پشاور کے چیمبر آف کامرس، سٹیٹ بینک کے نمائندوں سمیت دیگر سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کر رہی ہے۔
افغانستان کے ساتھ خوردنی اشیا کی تجارت سے وابستہ فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے نائب صدر ناصر خان نے پاکستانی حکومت کی جانب سے مقامی کرنسی میں ہمسایہ ملک کے ساتھ تجارت کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ فیصلے سے دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں اضافہ ہوگا اور تاجروں کو پاکستانی اشیاء افغانستان بھیجنے میں آسانیاں پیدا ہوں گی۔

انٹرنیشنل مارکیٹ میں کنٹینرز کے کرایے بہت بڑھ گئے ہیں اس لیے ایکسپورٹرز کے لیے پاکستانی تاجروں کا مقابلہ کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ (فائل فوٹو: ان سپلیش)

ان کے بقول 'مقامی کرنسی میں تجارت سے غیر دستاویزی تجارت اورحوالہ ہنڈی کے کاروبار کی حوصلہ شکنی ہوگی اور محصولات میں اضافہ ہوگا۔ افغانستان میں اس وقت بھی 50 فیصد سے زائد پاکستانی کرنسی چلتی ہے اس کا فائدہ افغان تاجروں کو بھی ہوگا۔'
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی کرنسی میں تجارت سے تاجر کرنسی ایکسچینج ریٹ سے بچ جائیں گے اور ان کے برآمدات کے اخراجات بھی دو سے تین فیصد کم ہوجائیں گے۔
افغانستان کے ادارہ برائے شماریات و معلومات (این سی آئی اے ) کے اعداد و شمار کے مطابق 2020 میں افغانستان کی درآمدات کی مجموعی مالیت تقریباً آٹھ ارب ڈالر تھی جس میں ایران، پاکستان، چین اور ازبکستان کے بعد پانچواں بڑا حصہ انڈیا کا تھا جس کی مالیت 48.9 کروڑ ڈالر تھی۔ جبکہ افغانستان کی 77.6 کروڑ ڈالر کی برآمدات میں سے 52 فیصد (40.5 کروڑ ڈالر) انڈیا بھیجا گیا۔
ناصر خان کے مطابق افغانستان میں طالبان کے آنے کے بعد بڑے پیمانے پر تجارتی میدان میں بڑا خلا پیدا ہوا ہے، انڈیا وہاں سے چلا گیا ہے۔ انٹرنیشنل مارکیٹ میں کنٹینرز کے کرایے بہت بڑھ گئے ہیں جس کی وجہ سے باقی ممالک کے ایکسپورٹرز کے لیے پاکستانی تاجروں کا مقابلہ کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ پاکستان کے پاس یہ سنہری موقع ہے اور اس کا بھر پور فائدہ اٹھایا جانا چاہیے۔ اگر دیگر وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ بھی مقامی کرنسی میں تجارت کی جائے تو پاکستان افغانستان کے راستے ازبکستان، تاجکستان وغیرہ کے لیے اپنی برآمدات بڑھا سکتا ہے۔

ناصر خان کے مطابق افغانستان میں طالبان کے آنے کے بعد تجارتی میدان میں بڑا خلا پیدا ہوا ہے، انڈیا وہاں سے چلا گیا ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں حالیہ بحران کے دوران خوراک کی شدید قلت پیدا ہوئی ہے۔ 'ہمیں پہلے کے مقابلے میں 300 فیصد زائد خوراک کی اشیا کے آرڈرز مل رہے ہیں۔ اگر روپے میں تجارت کرنے کے فیصلے پر فوری عمل درآمد ہوتا ہے تو برآمدات میں زبردست اضافہ ہو سکتا ہے۔'
این سی آئی اے کے مطابق افغانستان گندم، آٹا، چاول، خوردنی تیل، خشک دودھ، زندہ جانور سمیت 500 سے زائد اشیا پاکستان سے حاصل کرتا ہے۔ خوراک کے سامان کی افغانستان  کے ساتھ تجارت کرنے والے ناصر خان نے بتایا کہ افغانستان کی درآمدات میں تین چوتھائی حصہ خوراک کی اشیا کا بنتا ہے۔
پاکستان کی افغانستان کے لیے برآمدات اپنے عروج پر 2011 میں دو عشاریہ چھ ارب ڈالر تھیں مگر اس کے بعد سے اس میں بتدریج کمی آتی گئی۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد شمار کے مطابق 2020 میں پاکستان کی افغانستان کے لیے برآمدات 2019 کے مقابلے میں 25 فیصد کمی کے ساتھ 89 کروڑ ڈالر جبکہ درآمدات 28 فیصد کمی کے ساتھ 12.1 کروڑ ڈالر رہیں۔

افغانستان میں ڈالر کی کمی کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے اس لیے افغانستان کے ساتھ تجارت پاکستانی روپے میں کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

تاہم رواں سال مئی میں پاکستان کے مشیر تجارت رزاق داؤد نے بتایا کہ افغانستان کے لیے برآمدات گذشتہ سال کے مقابلے میں 15 فیصد بڑھ گئی ہیں۔
پاک افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس کے صدر جنید اسماعیل کہتے ہیں کہ افغانستان کی سابق حکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات میں تناؤ اور تکنیکی مسائل سے پاکستان کی افغانستان کے لیے درآمدات 50 فیصد کم ہوگئی تھیں۔ اب اگر درست اور بروقت اقدامات کیے جائیں تو دونوں ممالک کے درمیان پانچ ارب ڈالر کا تجارتی ہدف بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔
ایف پی سی سی آئی کے نائب صدر ناصر خان کے مطابق مقامی کرنسی میں تجارت کرنے میں سٹیٹ بینک رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔ وزارت تجارت کے ایک روز قبل ہونے والے اجلاس میں بھی سٹیٹ بینک نے اس پر اعتراض اٹھایا اور کہا کہ ڈاکومنٹیشن کیسے ہوگی۔ 'جس پر ہم نے انہیں تجویز دی کہ افغانستان میں بینک بند ہیں، وہاں پاکستانی بینک کی شاخیں قائم کی جائیں اور سفارتخانے میں سٹیٹ بینک کے ڈیسک بنائے جائیں۔ ایف پی سی سی آئی بھی اس سلسلے میں خدمات فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔'
ان کا کہنا تھاکہ تاجکستان، ازبکستان اور ایرا ن کے ساتھ بھی مقامی کرنسی میں تجارت ہونی چاہیے کیونکہ سٹیٹ بینک اور ایف بی آر کی جانب سے رکاوٹوں کی وجہ سے کئی تاجر حوالہ ہنڈی کے ذریعے رقوم کی منتقلی کرتے ہیں۔

پاکستانی روپے کو ڈالر اور پھر افغان کرنسی میں تبدیل کرنے پر خرچ آتا تھا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

چمن سرحد پر افغانستان سے تجارت کرنے والے عمران کاکڑ نے اردو نیوز کو بتایا کہ افغانستان کے ساتھ پہلے بھی مقامی کرنسی میں تجارت ہوتی تھی مگر ایف اے ٹی ایف کی سخت شرائط کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔
ان کا کہنا تھا کہ مقامی سطح پر بینکنگ کا نظام بہتر نہیں، تاجروں کو ای فارم نہیں ملتے۔ بینک تاجروں کو ڈالر نہیں دیتے، تاجر اوپن مارکیٹ سے مہنگے داموں ڈالر خریدتے اور پھر کم قیمت پر بھیجتے تھے اس طرح انہیں کرنسی ایکسچینج ریٹ کی مد میں بھی لاکھوں روپے کا نقصان ہوتا تھا۔ امید ہے کہ مقامی کرنسی میں تجارت سے یہ مسائل ختم ہوجائیں گے۔
کرنسی ایکسچینج ڈیلر اور فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین ملک محمد بوستان نے بھی اس بات کی تائید کی اور کہا کہ پاکستانی روپے کو ڈالر اور پھر افغان کرنسی میں تبدیل کرنے پر جو خرچ آتا تھا اس کی اب بچت ہوجائے گی۔ اسی طرح جو تجارت پہلے چور راستے سے ہوتی تھی اب قانونی طریقے سے ہوگی۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’افغانستان میں حالیہ تبدیلیوں اور بیرونی مالی اثاثے منجمد ہونے کے بعد ڈالر ناپید ہوگیا ہے اس لیے پاکستان سے ڈالر جا رہا تھا۔ اب جب تجارت کے لیے ڈالر کی ضرورت نہیں ہوگی تو سمگلنگ میں کمی آئے گی۔‘

 این سی آئی اے کے مطابق افغانستان 500 سے زائد اشیا پاکستان سے حاصل کرتا ہے۔ (فائل فوٹو: ان سپلیش)

سرحد چیمبر آف کامرس کے سابق سینئر نائب صدر شاہد حسین نے بتایا کہ ہمیں وزارت تجارت کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ صرف جلد خراب ہونے والی پھل سبزیاں اور خوراک کی اشیا کی پاکستانی کرنسی میں افغانستان ایکسپورٹ کی اجازت ہوگی۔ اس فیصلے کا اطلاق باقی اشیا پر بھی ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں سے بڑے پیمانے پر زرعی مشنری، سیمنٹ اور تعمیراتی سامان بھی جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں بینکوں کے بند ہونے، بیرونی مالی ذخائر کے منجمد ہونے کے باعث دیگر ممالک کے ساتھ تجارت رک گئی ہے۔ مقامی کرنسی میں تجارت سے پاکستان افغانستان کی مارکیٹ میں دوبارہ اپنے قدم جما سکتا ہے۔ اس کے بعد دیگر وسطی اشیائی ممالک تک رسائی بھی آسان ہوجائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ایران کی بندر عباس کے مقابلے میں پاکستانی بندرگاہیں ازبکستان اور وسطی اشیائی ممالک کے لیے لگ بھگ دو ہزار کلومیٹر کم فاصلے پر پڑتی ہیں۔
ناصر خان کا کہنا تھا کہ ایف پی سی سی آئی کے زیر انتظام پاکستانی تاجروں کا وفد جلد کابل کا دورہ کرے گا تاکہ نئی افغان حکومت کے ساتھ  تجارت سے متعلق مسائل حل کیے جا سکیں۔ پاکستانی تاجر افغانستان میں سرمایہ کاری کے نئے مواقع کو بھی تلاش کریں گے۔

شیئر: