لوئر دیر کے رہائشی رضوان اللہ چھوٹی موٹی ملازمت کے سلسلہ میں اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ ان کے کسی رشتہ دار نے بیرون ملک روانہ ہونا تھا جس نے انھیں پیسے دیے کہ وہ انھیں غیرملکی کرنسی میں تبدیل کروا لائے لیکن ایسا کرنے سے پہلے ہی وہ اسلام آباد کے وسط میں واقع سپر مارکیٹ میں پولیس کی وردی میں ملبوس ڈاکوؤں کے ہاتھوں لٹ گئے۔
تھانہ کوہسار میں درج کرائی گئی ایف آئی آر میں رضوان اللہ نے موقف اختیار کیا ہے کہ پولیس وردی میں ملبوس چار افراد آئے انہیں روکا، تلاشی لی۔ پرس سے ساڑھے تین لاکھ روپے نکالے، دباؤ ڈالا اور چلتے بنے۔
مزید پڑھیں
-
لاہور میں بچے کو ٹرین سے بچاتے ہوئے پولیس اہلکار ہلاکNode ID: 589096
بظاہر یہ ایک ڈکیتی کی واردات ہے لیکن رضوان اللہ کے بقول ’اگر پولیس بروقت میری بات سن کر ایکشن لیتی تو نہ صرف میری لوٹی گئی رقم واپس مل سکتی تھی بلکہ اسلام آباد میں سکیورٹی کے حوالے سے پولیس کی مستعدی پر انھیں داد و تحسین بھی ملتی۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا۔‘
اردو نیوز سے گفتگو میں رضوان اللہ نے بتایا کہ ’واردات کے چند منٹ کے بعد جب سنبھلا تو سامنے ہی پولیس کے سہولت سینٹر گیا اور انھیں آگاہ کیا۔ انھوں نے مجھے کوہسار تھانہ میں رپورٹ درج کرنے کا کہا جو 10 منٹ کی مسافت پر تھا۔‘
رضوان کا کہنا ہے کہ تھانے میں ’ایک بندے سے دوسرے اور ایک دفتر سے دوسرے دفتر کے چکر کاٹنے میں دو گھنٹے ضائع ہوگئے۔ تب جا کر ایک تفتیشی افسر آئے اور میری رپورٹ درج کرنے کے بعد مجھے سیف سٹی کنٹرول روم لے کر گئے۔ سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھنے پر معلوم ہوا کہ ڈاکو پولیس وردی میں واردات کے دو گھنٹے بعد تک پارلیمنٹ ہاوس، وزیراعظم آفس اور دیگر اہم ترین علاقوں کے سامنے گشت کرتے رہے۔‘
رضوان کے مطابق ’اس فوٹیج میں گاڑی کی نمبر پلیٹ نہیں پڑھی جا سکی۔ پولیس نے مزید تفتیش کا کہا اور اب کئی روز گزر جانے کے باوجود کسی پیش رفت سے آگاہ نہیں کیا۔‘

اردو نیوز نے اس معاملے پر بات کرنے کے لیے مقدمہ کے تفتیشی اے ایس آئی ثنا اللہ، ایس ایچ او تھانہ کوہسار شاہد زمان اور ایس پی سٹی رانا عبدالوہاب سے متعدد مرتبہ رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ دستیاب نہ ہوسکے۔
تاہم وزارت داخلہ کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے اعداد و شمار رضوان اللہ جیسے کئی شہریوں کی داستان بیان کرتے نظر آتے ہیں۔
ان اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2020 کے پہلے سات ماہ کے مقابلے میں رواں سال کے پہلے سات ماہ میں سٹریٹ کرائمز میں اوسطاً 100 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
وزارت داخلہ کے مطابق اسلام آباد میں سنہ 2020 میں پرس چھیننے کے سات واقعات ہوئے تھے جو ان سات ماہ میں 180 فیصد اضافے کے ساتھ 19 ہو گئے ہیں۔ 2021 میں رقوم چھیننے کی مجموعی وارداتوں کی تعداد 58 ہے جو پچھلے پورے سال میں 42 تھیں۔
اسی طرح موبائل اور کیش چھیننے کی وارداتیں 80 فیصد بڑھی ہیں اور رواں سال موبائل چھیننے کے واقعات کی تعداد 73 رہی ہے جو گذشتہ برس 41 تھی۔ سب سے کم وارداتیں زیورات چھیننے کی ہوئیں لیکن پھر بھی پچھلے سال سے زیادہ ہوئیں۔ گذشتہ برس کی 13 وارداتوں کے مقابلے میں اس دفعہ زیورات چھیننے کے 17 واقعات ہوئے۔
صرف موبائل چھیننے کے واقعات کو الگ کیٹیگری بتاتے ہوئے وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ ان میں 200 فیصد اضافہ ہوا۔ گذشتہ برس ایسے واقعات کی تعداد 27 تھی جبکہ رواں برس کے سات ماہ میں یہ تعداد 54 کے اضافے کے ساتھ 81 ہوگئی ہے۔
کار چھیننے کی وارداتوں میں بھی تقریباً دوگنا اضافہ ہوا ہے جو 10 سے بڑھ کر 19 ہوگئی ہیں جبکہ موٹر سائیکل چھیننے کے واقعات بھی 31 سے بڑھ 51 ہوگئے ہیں۔
