پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ ’اگر ان کی جماعت 2018 کے الیکشنز سے قبل صحیح حکمت عملی بناتی تو نواز شریف چوتھی بار وزیراعظم بن سکتے تھے۔‘
ان کے اس بیان کے بعد نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا مسلم لیگ ن حکمت عملی کی وجہ سے ہاری ہے یا دھاندلی کی وجہ سے؟
جیو نیوز پر سلیم صافی کو انٹرویو دیتے ہوئے سابق وزیراعلٰی پنجاب شہباز شریف نے کہا کہ ’2018 کے انتخابات سے قبل اگر اجتماعی مشاورت سے درست حکمت عملی بناتے تو شاید 2018 کے الیکشن کے نتیجے میں نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیراعظم بن سکتے تھے۔ یہ بات میں آج بھی بلاخوف تردید کہہ سکتا ہوں۔‘
مزید پڑھیں
-
حکومتیں انہوں نے بنانی ہیں تو پھر عوام کون ہیں: نواز شریفNode ID: 585241
-
نوازشریف، افغان مشیر ملاقات: ’پاکستان کو بہت نقصان پہنچا ہے‘Node ID: 585301
-
شہباز شریف کا ایک بار پھر مفاہمت پر زور: ماضی بھلانے کا مشورہNode ID: 587711
دوسری طرف مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے پیر کے روز اپنی ٹویٹس میں ایک بار پھر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’مسلم لیگ ن کی 5 لاکھ ووٹوں سے 6 سیٹیں اور پی ٹی آئی کی 6 لاکھ ووٹوں سے 26 سیٹیں۔ تحریک انصاف کی ایسی فتح پر کون یقین کرے گا؟‘
’آزاد کشمیر اور سیالکوٹ کے نتائج جس طرح حاصل کیے گئے اُس کا تذکرہ اِن انتخابات کے دنوں سے پہلے ہی منظرعام پر آنا شروع ہوگیا تھا، باقی آنے والے دنوں میں اور بے نقاب ہوگا۔
اس سے قبل مسلم لیگ ن کی نائب صدر اور نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز بھی زور دے کر کہہ چکی ہیں کہ ’وہ دھاندلی کے باعث 2018 کے انتخابات کے نتائج کو نہیں مانتیں۔‘
گو کہ جیو نیوز پر انٹرویو کے دوران شہباز شریف نے اس خبر کو جعلی قرار دیا کہ وہ اپنی بھتیجی مریم نواز شریف سے اختلافات کے باعث پارٹی صدارت سے مستعفی ہو رہے ہیں، تاہم انٹرویو کے دوران اینکر سلیم صافی کی جانب سے متعدد بار مریم نواز اور نواز شریف کےالگ بیانیے کے حوالے سے سوالات کے باوجود انہوں نے مریم نواز کے بجائے صرف نواز شریف کا نام لے کر اپنی پوزیشن واضح کی کہ ’ان کا نواز شریف سے کوئی اختلاف نہیں وہی ان کے قائد ہیں۔‘
یہ جدوجہدمحض چند سیٹوں کی ہار جیت کے لئے نہیں بلکہ آئین شکنوں کی غلامی سے نجات کے لئیے ہے۔ اور اپنی عزتِ نفس پر سمجھوتہ کئے بغیر تاریخ کی درست سمت میں کھڑے نظر آنے کے لئے ہے۔ مسلم لیگ ن اور عوام کے درمیان خلیج ڈالنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو گی اِنشاءاللہ۔ 3/3
— Nawaz Sharif (@NawazSharifMNS) August 2, 2021
شہباز شریف کو لائن کھینچنا ہوگی: سلمان غنی
لاہور میں شریف فیملی کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے صحافی سلمان غنی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ان کی چند دوستوں کے ہمراہ 2018 کے انتخابات سے کچھ دن قبل شہباز شریف سے ملاقات ہوئی جس میں سابق وزیراعلٰی نے برملا کہا تھا کہ ’الیکشنز کیسے بھی ہوں حکومت نہ اوپر (مرکز میں ) ہمیں ملے گی نا نیچے (پنجاب میں)۔‘
سلمان غنی کے مطابق ’کشمیر کے انتخابات میں پارٹی کی ناقص کارکردگی پر شہباز شریف نے ناراضی کا اظہار کیا ہے اور لگتا ہے کہ یہ سلسلہ اب رکے گا نہیں۔ شہباز شریف کو لائن کھینچنا ہوگی۔‘
سلمان غنی کے مطابق شہباز شریف نے حال ہی میں ایک نجی محفل میں کہا ہے کہ ’چار لوگ جن کے دو ووٹ بھی نہیں وہ پارٹی پر حاوی ہو رہے ہیں۔ شاید ان کا اشارہ مریم نواز کے قریب چند لوگوں کی طرف تھا۔‘

سلمان غنی کہتے ہیں کہ ’شہباز شریف پارٹی اراکین کے دباؤ میں ہیں جو انہیں کہتے ہیں کہ وہ کوئی لائن لیں۔ 95 فیصد پارٹی اراکین اسمبلی شہباز شریف کے بیانیے کو پسند کرتے ہیں، انہیں معلوم ہے کہ ووٹ مریم نواز اور نواز شریف کے ذریعے ملیں گے مگر حکومت شہباز کے ذریعے ہی مل سکتی ہے۔‘
سینیئر صحافی احمد ولید کے مطابق ’2018 کے انتخابات سے قبل شہباز شریف اور چوہدری نثار کی حکمت عملی یہ تھی کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر چلنا ہے،‘ تاہم میاں نواز شریف کی طرف سے ان کی بات نہیں مانی گئی اور کہا گیا کہ ’مفاہمت کی مسلسل کوششوں کے باوجود بھی پانامہ کے نام پر ہماری حکومت ختم کی گئی۔‘
احمد ولید کے مطابق ’شہباز شریف انتخابات سے قبل وزارت عظمیٰ کے لیے پرامید تھے، شاید انہیں امید دلائی گئی تھی تاہم انتخابات کے نتائج ان کی توقع کے برعکس آئے۔‘
