پاکستانی صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع چترال میں ’کشمیر مارخور‘ کو زخمی کرنے والے نامعلوم سیاح کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
محکمہ وائلڈلائف کے اہلکاروں نے زخمی مارخور کو نکال کر سرکاری طبی مرکز پہنچایا جہاں واضح ہوا کہ فائرنگ کا نشانہ بننے والی مادہ مارخور نے کچھ عرصہ قبل ہی بچہ جنا تھا۔
ڈسٹرکٹ فارسٹ افسر وائلڈ لائف چترال الطاف احمد کے مطابق واقعے کے وقت محکمہ وائلڈ لائف کا عملہ کچھ دور موجود تھا۔ فائرنگ سے پانی پینے کے لیے آئی ہوئی مارخور زخمی ہو کر دریا میں گری جسے دریا سے نکال کر جانوروں کے ہسپتال منتقل کیا۔
مزید پڑھیں
-
چترال کی خوبصورتی جو شاہی جوڑا دیکھ کر ’دنگ رہ گیا‘Node ID: 438421
-
چترال میں مارخور کا ایک لاکھ 40 ہزار ڈالر میں شکارNode ID: 448461
-
چترال: کورونا وائرس کی افواہ پھیلانے کے الزام پر مقدمہNode ID: 457126
الطاف احمد نے بتایا کہ ٹھوشی کنزروینسی میں سینکڑوں مارخور موجود ہیں جو عصر کے وقت پانی پینے کے لیے نیچے دریا پر آتے ہیں۔ انہیں دیکھنے کے لیے مقامی اور غیرمقامی سیاح بڑی تعداد میں دریا کے دوسرے کنارے پر جمع ہوتے ہیں۔
جانوروں کے ہسپتال میں زخمی مارخور کی جان بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
چترال سٹی پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او انسپکٹر سجاد احمد نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ محکمہ جنگلی حیاتیات کی درخواست پر نامعلوم ملزم کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملزم کی تلاش جاری ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق مارخور کو زخمی کرنے والا سیاح غیر مقامی تھا۔
بچہ جننے والی مادہ مارخور کو زخمی کیے جانے کے واقعہ پر جہاں مقامی افراد نے غم وغصہ کا اظہار کیا، وہیں سوشل میڈیا صارفین بھی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ایسے واقعات فورا روکنے کے لیے ضروری اقدامات کا مطالبہ کرتے رہے۔
چترال میں فائرنگ سے زخمی مار خور کی اطلاع مقامی شہری محمد شجاع الحق بیگ نے فیس بک پر شیئر کی۔
فیس بک صارف نے اپنی پوسٹ میں لکھا تھا کہ ’وہ اپنے دوستوں کے ہمراہ شہرشام، چترال میں روز شام کو دریا کنارے آنے والے مارخور دیکھنے کے لیے موجود تھے۔ واپسی کے دوران ہم نے مارخور کے زخمی ہونے کا افسوسناک معاملہ دیکھا۔‘
شجاع الحق بیگ نے مزید لکھا کہ ’وہاں موجود دو مقامی لڑکوں نے بتایا کہ ایک کرولا گاڑی میں موجود سیاحوں نے پانی پیتے ہوئے مارخور کو فائرنگ سے زخمی کیا۔‘
فیس بک صارف نے جہاں معاملے کی نشاندہی کے بعد واقعے کی مذمت کی وہیں مطالبہ کیا کہ فوری قانون سازی کر کے ضروری اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ ’ماحولیاتی دہشت گردی‘ کو روکا جائے۔
واقعے کی ابتدائی تفصیلات پر تبصرہ کرنے والے صارفین نے اس میں ملوث افراد کے خلاف فوری کارروائی کا مطالبہ کیا تو مقامی انتظامیہ کو یہ سلسلہ نہ روک سکنے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔
قاضی انور نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’یہ ضلعی انتظامیہ کے منہ پر تھپڑ ہے۔ ایسی سرگرمیوں میں ملوث بااثر افراد کے خلاف کارروائی کرنے کی ہمت کوئی بھی نہیں کرتا۔‘












