امریکہ کو فضائی و بری راستوں کی فراہمی، 2001 کا معاہدہ کیا تھا؟
امریکہ کو فضائی و بری راستوں کی فراہمی، 2001 کا معاہدہ کیا تھا؟
بدھ 26 مئی 2021 6:01
وسیم عباسی -اردو نیوز، اسلام آباد
دو ہزار ایک میں پرویز مشرف کے دور حکومت میں زمینی و فضائی راستوں کے حوالے سے امریکہ کے ساتھ معاہدہ ہوا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے وزیرخارجہ نے واضح کیا ہے کہ پاکستان میں امریکی اڈوں کے حوالے سے خبریں بے بنیاد ہیں اور پاکستان میں نہ کسی ڈرون کو اجازت دیں گے نہ ہی کوئی امریکی اڈہ قائم کیا جائے گا۔
تاہم میڈیا رپورٹس کے بعد دفتر خارجہ نے پیر کو وضاحت جاری کی تھی کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان ہوائی اور زمینی راستوں کے تحت تعاون کا انتظام 2001 سے جاری ہے۔
اس حوالے سے اپوزیشن نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے اور اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’2001 میں جنرل مشرف کی حکومت تھی جو ایک ڈکٹیٹر تھے اور انہیں کوئی حق نہیں تھا کہ امریکہ کے ساتھ اس طرح کا معاہدہ کریں، وہ شرمناک معاہدہ تھا حکومت کیوں اسے جاری رکھے ہوئے ہے۔‘
اس سے قبل انگریزی اخبار ڈان میں چھپنے والی ایک خبر میں امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری برائے دفاع ڈیوڈ ایف ہیلوی کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ’پاکستان نے امریکی افواج کو اپنی زمینی اور فضائی حدود کے استعمال کی اجازت دے دی ہے تاکہ امریکہ انخلا کے بعد بھی افغانستان میں اپنی موجودگی قائم رکھ سکے۔‘
تاہم دفتر خارجہ نے واضح کیا کہ یہ اجازت پرانے معاہدے کے تحت موجود ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ پاکتان میں امریکی اڈوں سے متعلق خبریں بے بنیاد ہیں (فوٹوؒ دفتر خارجہ)
دو ہزار ایک میں کیا طے ہوا تھا؟
امریکہ کے تھنک ٹینک وڈرو ولسن سینٹر سے منسلک تجزیہ کار مائیکل کوگلمین نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پاکستان اور امریکہ کے درمیان 2001 میں جو زمینی اور فضائی راستوں کی فراہمی کا معاہدہ ہوا تھا اس کے ذریعے امریکہ کو یہ حق ملا کہ وہ پاکستان کے ہوائی اور بری راستوں سے جنگی سامان افغانستان پہنچا سکے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ بہت اہم معاہدہ تھا اس نے پاکستان کا امریکہ پر پلڑا بھاری کر دیا تھا کیونکہ پاکستان کی زمینی اور فضائی حدود بند ہونی کی صورت میں امریکہ کو وسطی اشیا کا مہنگا اور مشکل راستہ اختیار کرنا پڑتا۔‘
مائیکل کوگلمین کے بقول ’امریکہ کو یہ سبق اس وقت ملا جب سلالہ واقعے کے بعد پاکستان نے اپنی حدود بند کر دیں۔ امریکہ ہمیشہ پاکستانی راستے کو ترجیح دیتا رہا ہے۔‘
پاکستان کے سابق سیکرٹری دفاع اور کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل آصف یاسین ملک نے اردو نیوز کو بتایا کہ ان کی معلومات کے مطابق گیارہ ستمبر 2001 کے بعد امریکہ نے افغانستان میں جنگ چھیڑی تو پاکستان نے اسے زمینی اور فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی تھی، تاہم دونوں ممالک کے درمیان کوئی باقاعدہ معاہدہ نہیں ہوا بس ایک انڈرسٹینڈنگ تھی۔
نومبر دو ہزار گیارہ میں سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے بعد زمینی راستہ چند ماہ کے لیے بند کیا گیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
ان کے مطابق ’چونکہ یہ معاہدہ نہیں تھا اور اس کی کوئی میعاد طے نہیں ہوئی تھی اس لیے یہ انڈرسٹینڈنگ چلتی رہی اور اب تک چل رہی ہے۔‘
جنرل آصف کے مطابق ’نومبر 2011 میں سلالہ میں پاکستانی چیک پوسٹ پر امریکی حملے کے بعد پاکستان نے امریکہ اور نیٹو کا زمینی راستہ چند ماہ کے لیے بند کر دیا تھا جسے اگست 2012 میں کھول دیا تھا اور شاید اس وقت کچھ مزید ضوابط طے کیے گئے تھے۔‘
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمان اس وقت امریکہ میں پاکستان کی سفیر تھیں۔ اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے اانہوں نے کہا کہ ’2012 میں حکومت پاکستان نے امریکہ کے لیے افغانستان کا زمینی رابطہ معطل کردیا تھا ۔ یہ راستہ امریکہ کی جانب سے معافی کے بعد ہی کھولا گیا تھا اور اس حوالے سے پارلیمنٹ نے ایک معاہدہ بھی کیا تھا۔‘
اس سوال کے جواب میں کہ کیا 2012 کے نئے معاہدے کے تحت امریکہ کی جانب سے نیٹو سپلائی کے لیے پاکستان کو کچھ ادائیگی بھی طے کی گئی تھی؟ انہوں نے بتایا کہ ’کوئی ادائیگی نہیں طے ہوئی تھی، صرف سڑکوں کی مرمت کی ذمہ داری لی گئی تھی۔
چند روز ایک خبر سامنے آئی جس میں امریکی اسسٹنٹ برائے دفاع ڈیوڈ ایف ہیلوی کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ پاکستان نے امریکہ کو زمینی و فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت ے دی ہے فوٹو: اے ایف پی
امریکہ میں پاکستان کے ایک اور سابق سفیر جلیل عباس جیلانی کا کہنا ہے کہ افغانستان کے لیے جنگی سازو سامان کراچی سے بذریعہ سڑک افغانستان تک پہنچانے کے لیے امریکہ نے پاکستان سے 2001 میں مدد مانگی تھی اور اسی طرح فضائی حدود کے استعمال کی بھی اجازت مانگی گئی تھی اور ایک تعاون کا معاہدہ ہوا تھا وہی ابھی تک چل رہا ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ اس ’معاہدے ‘ میں پاکستان کی جانب سے کیا شرائط عائد کی گئی تھیں تو سابق سفیر کا کہنا تھا کہ ’کوئی شرائط نہیں تھیں، بس چونکہ دھشت گردی کے خلاف جنگ تھی جس کا پاکستان حصہ تھا اس لیے طے ہوا کہ پاکستان امریکہ کو زمینی راستہ مہیا کرے گا اور یہ سہولت بغیر کسی ادائیگی کے مفت فراہم کی گئی تھی۔‘
کیا پاکستان اور امریکہ کا نیا معاہدہ ہو سکتا ہے؟
اردو نیوز کے اس سوال پر مائیکل کوگلمین کا کہنا تھا کہ ’یہ واضح نہیں کہ اب پاکستان اور امریکہ کے درمیان اس طرح کا کوئی نیا معاہدہ ہو سکتا ہے کیونکہ امریکی دعویٰ ہے کہ وہ افغانستان سے اپنی افواج کا مکمل انخلا کرے گا تو اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اسے پھر جنگی سامان افغانستان پہنچانے کے لیے کسی زمینی یا فضائی راستے کی ضرورت ہی نہیں ہو گی۔‘
شیری رحمان کا کہنا ہے کہ راستہ امریکہ کی جانب سے معافی کے بعد کھولا گیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس بات کے واضح امکانات موجود ہیں کہ امریکی پرائیویٹ دفاعی کنٹیریکٹر افغانستان میں رکے رہیں جس کی وجہ سے سازوسامان پاکستان کے راستے افغانستان پہنچانا ضروری ہو۔
بقول ان کے ’زیادہ متنازع معاملہ یہ ہے کہ افغانستان سے نکل جانے کے بعد دہشت گردی کے خاتمے کی امریکی صلاحیت برقرار کیسے رکھی جائے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ افغانستان میں دہشت گردی کے سدباب کے لیے صلاحیت برقرار رکھی جائے۔‘
مائیکل کوگلمین نے کہا کہ ’اب اس مقصد کے لیے اسے دوسرے ممالک کی فضائی حدود کے علاوہ اپنے فوجی اثاثوں کے لیے جگہ بھی درکار ہے۔ اگر اس حوالے سے پاکستان کے ساتھ کوئی معاملہ طے پا جاتا ہے تو پھر امریکہ اور پاکستان کے درمیان نیا معاہدہ ہو سکتا ہے۔‘
حزب اختلاف کے اتحاد پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے دو ہزار ایک کا معاہدہ جاری رکھنے پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے (فوٹوِ اے ایف پی)
مائیکل کوگلمین کا کہنا تھا کہ اس طرح کے تعاون کی ماضی میں مثالیں موجود ہیں اور انہیں یقین ہے کہ امریکہ اس حوالے سے امکانات کا جائزہ لے رہا ہے اور پاکستان بھی اس حوالے سے بات چیت پر آمادہ نظر آتا ہے۔
’تاہم میں اس امکان پر زیادہ زور نہیں دوں گا کیونکہ معاملہ پاکستان میں خاصا حساس ہے اور عوامی رائے عامہ میں اس کی شدید مخالفت بھی پائی جاتی ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم ایک عرصے سے ڈرون حملوں کے سخت مخالف ہیں اور شاید وہ اس طرح کا معاہدہ نہیں چاہیں گے۔‘
مائیکل کوگلمین کا کہنا تھا کہ اگر اس طرح کا کچھ انتظام ہو بھی جاتا ہے تو اس کا اعلان مشکل ہو گا کیونکہ یہ معاملہ حساس ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ زمینی اور فضائی حدود کے حوالے سے نیا معاہدہ پاکستان کے لیے زیادہ آسان ہو گا بہ نسبت اس کے کہ امریکہ کو مستقبل کے لیے کوئی انسداد دہشت گردی کا ٹھکانہ دیا جائے تاہم دونوں صورتوں میں امریکہ کو پاکستان کو بڑی رعایتیں دینا پڑیں گی۔