کورونا وبا کی تیسری لہر اب تک خطرناک ترین ثابت ہو رہی ہے۔ دنیا کے کئی ممالک اس کی لپیٹ میں ہیں۔ ہمسایہ ملک انڈیا کے مناظر خوفناک اور روح فرسا ہیں۔
پاکستان میں بھی سنیچر کے روز اب تک کی سب سے زیادہ اموات ریکارڈ کی گئیں۔ مثبت کیسز کی شرح اب کئی جگہ پر 20 فیصد سے بھی بڑھ گئی ہے اور نظام صحت پر بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ حکومت کو آخر کس چیز کا انتظار ہے؟
حکومت اور حکام کی طرف سے وارننگ دینے کا سلسلہ البتہ جاری ہے۔ وزیراعظم ماسک پہننے کا طریقہ بتا رہے ہیں اور جناب اسد عمر انڈیا کی تصویریں ٹویٹ کرکے ڈرا رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا وزرا کا کام صرف وارننگ دینا ہے؟ یہ حکومت جاگتے رہنا اور ہمارے پر نہ رہنا کی پرانی مثال کی عملی تصویر ہے۔
مزید پڑھیں
یہ بات اب نوشتہ دیوار ہے کہ محدود اقدامات کارآمد ہوتے نظر نہیں آرہے۔ اگر یہ بات واضح ہے تو جو اقدامات کل لینے ہیں وہ اگر آج لے لیے جائیں تو کیا اس دوران ہوئے نقصان سے بچا نہیں جا سکتا؟
سوال یہ بھی ہے کہ عوام کو ایس او پیز کی تلقین کے علاوہ حکومت کی سٹریٹجی اور ہے کیا؟ دنیا اس پر دو سطح پر کام کر رہی ہے، ایک لاک ڈاؤن اور دوسرا ویکسین۔
پہلے اگر ویکسین کی بات کریں تو پاکستان میں اب تک 18 لاکھ لوگوں کو ویکسین لگی ہے۔
ایک فیصد سے بھی کم ویکسین کی شرح کے ساتھ کب اور کس طرح اس لہر کا بہاؤ رکے گا، اس کا جواب حکومت کے بزر جمہر ہی دے سکتے ہیں۔ وفاقی حکومت بروقت ویکسین نہ لینے کی وجہ وسائل کی کمی بتاتی ہے۔
کیا حکومت کا جان بچانے والی ادویات کے لیے بیس پچیس ملین ڈالر کا انتظام مشکل ہے؟
وفاق کی ہی پارٹی کی حکومت پنجاب صرف پریس کانفرنسز ہی میں بازی لے جا سکتی ہے۔ آج ہی کی خبروں میں وزیر اعلٰی نے تونسہ اور ڈیرہ غازی خان کے لیے اربوں روپے کے فنڈز کا اعلان کیا ہے۔ اگر انڈیا اور اتر پردیش جیسے حالات پیش آئے تو پنجاب کے حصے میں کہیں پچھتاوا نہ آجائے۔
سرکاری کے علاوہ پرائیویٹ ویکسینز میں بھی کئی ہفتے ضائع کیے گیے ہیں۔ سرکاری سرخ فیتے کی وجہ سے ابھی بھی ویکیسین کی درآمد، قیمت اور سہولیات کا تعین نہیں ہو سکا۔
ایسا لگتا ہے کہ وزرات صحت، این سی او سی اور ڈریپ کا زور ویکسین کو اجازت دینے سے زیادہ اس کو روکنے میں ہے۔
