بلا شبہ ”علم“ وہ سبب ہے جس کے باعث انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ ملا،بس انسان کی باطنی قوت طاقتور ہونی چاہئے
زینت شکیل۔جدہ
بلا شبہ ”علم“ وہ سبب ہے جس کے باعث انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ ملا۔ وہ انسان بہترین ہے جس نے ”قرآن مجید سیکھا اور سکھایا“۔ ہمیں یہ بھی باور کرایا گیا ہے کہ چاہے تم معلم بن جاو¿ یاطالب علم ، ساری زندگی انہی دو صورتوں میں زندگی گزارو۔
وہ غور سے اپنی استانی صاحبہ کی بات سن رہی تھی ، جب وہ بات کرتیں تو ایسا ہی محسوس ہوتا جیسے وقت تھم گیا ہو۔ اردگرد کی چیزیں پریشان کررہی ہوتیں اور کسی طرح کی کمی کا احساس نہ جاگتا۔ اس چھوٹی سے بستی میں لوگ صبح نماز کے بعد کھلی جگہ پر مختلف رنگوں کی چٹائیاں اور دریاں بچھا کر اپنا سبق یاد کرتے۔ اپنے استاد کو سناتے ، قریب بہتا دریا خشک ہوکر اور کچھ بے عقل لوگوں کی وجہ سے صفائی کے فقدان کے باعث جوہڑمیں تبدیل ہوچکا تھا لیکن پھر بھی کسی چیز کو مسئلہ بنانے سے وہ کام نہیں ہوتا بلکہ کام کرنے سے مسائل حل ہوتے ہیں۔
وہ اپنی استانی صاحبہ سے پوچھ رہی تھی کہ ہمارے محلے میں اسقدر آلودگی کیوں ہے ؟ وہ جواب میں بتارہی تھیں کہ پاکیزگی اور صفائی بے حد ضروری ہے اور ہماری اخلاقیات کا حصہ ہے ۔ یہ بات جب سمجھ میں آجائے گی اور اس پر عمل بھی ہونے لگے گا تو ہر شہر ، ہر محلہ صاف ستھراہو جائے گا۔
وہ پوچھ بیٹھی کہ یہ جن کا کام ہے وہ لوگ کیوں نہیں کرتے ، کیونکہ وہ کتابیں پڑھنے کی شوقین تھی اس لئے بہت ساری باتیں لوگوں کی ذمہ داریاں اور ریاست کے فرائض سے بھی آگاہی مل گئی تھی۔ انہوں نے کہا ،ہم جب صرف اپنی بات کریں ،اپنا کام ایمانداری سے انجام دیں تو بہت سے کام کی شروعات ممکن بنالیں گے اور پھر اس کے آگے کا کام یقینی طور پر ریاست کو مکمل کرنا ہوگا لیکن جب ہم خود سستی و کاہلی کا شکار رہیںگے اور چاہیں گے کہ ہمارے علاوہ ہر شعبہ¿ زندگی اپنی اپنی جگہ سستی و کاہلی چھوڑ دے اور کام کرنا شروع کردے تو یہ درست نہیں ، سب سے پہلے اپنا کام ایمانداری سے انجام دینے کی بھرپور کوشش کرنی چاہئے پھر دوسروں کی طرف نشاندہی کی جانی چاہئے کہ انہیں لامحالہ اپنا کام کرنا ہی پڑے گا۔
دوسری بچی جو اس کے قریب ہی بیٹھی تھی ،کہنے لگی کہ استانی جی، باجی جان نے علامہ اقبال کی دعا ہمیں یاد کرادی ہے اور جب کھانے کا وقفہ ہوتا ہے تو اس وقت بھی ہم لوگوں کو اپنی کتاب سے بہت اچھی اچھی کہانیاں سناتی ہیں ۔ دوسری بچی نے بھی بات آگے بڑھائی کہ ہاں علامہ اقبال کی شاعری بھی سنارہی تھیں۔ ہمیں بھی چند اشعار یاد ہوگئے ہیں:
یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے
جنہیں تونے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
ٍ وہ ذرا رُکی تو فوراً دوسری طالبہ نے کتاب کھول کر اشعار بتادئیے، وہ دیکھ کر خوش ہورہی تھیں کہ جب سب ملکر علم کو پھیلائیں گے ، اس کو اپنی زندگی میں صرف کاغذی ڈگری کے حصول کا ذریعہ نہیں بنائیں گے بلکہ علم کو اپنے اندر جذب کرلیں گے تو کوئی وجہ نہیں کہ آج سے چندعشروں کے بعد آپس میں مل بیٹھیں تو یاد کریں کہ کیسا ہمارا محلہ تھا، کیسے ہمارے استاد تھے، کس قدر ہم لوگوں پر محنت کرتے تھے جن کی وجہ سے آج ہمارا محلہ ہمارا ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب اساتذہ اپنی ذمہ داریاں احسن طریق پر ادا کرنے لگیں تو اقتصادی ناہموریاں ہماری باطنی قوتوں کو متزلزل نہیں کرسکتیں۔ جو لوگ اپنے باطن میں طاقتور ہوتے ہیں ان کے ارد گرد والدین ، اساتذہ اور دوست بزرگ دنیا کی بے ثباتی بتاتے ہیں اور انبیائے کرام علیہم السلام کی زندگیوں کے قصے سناتے ہیں، قرآن مجید کو ترجمے کے ساتھ پڑھتے اور پڑھاتے ہیں تو دل دنیاوی چیزوں کی طرف مائل ہی نہیںہوتا ۔جو ہے سب وقتی ہے چاہے وہ رہے یا نہ رہے ہمیں اس کی موجودگی اور غیرموجودگی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
استانی صاحبہ کی بات سن کر وہ ہمت پاتی تھی کہ قدرت نے انسان کو بے بہا نعمتوں سے نوازا ہے ۔ صحت و شعور دیا، مکمل بنایا، اچھائی اور برائی میں فرق کرنا سکھایا، بھلا اس کی کیا اہمیت ہے کہ ہم کرسی میز پر بیٹھیں یا ٹاٹ پر ہماری باطنی قوت طاقتور ہونی چاہئے۔
٭٭٭٭٭٭