مذہبی جماعت تحریک لبیک کے کئی روز سے جاری احتجاج اور ملک بھر میں ہونے والے پرتشدد واقعات کے بعد بلآخر منگل کو حکومت نے چند روز قبل کالعدم قرار دی جانے والی جماعت کے مطالبات تسلیم کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں فرانس کے سفیر کی ملک بدری کے حوالے سے قرارداد قومی اسمبلی میں لانے کا اعلان کیا ہے۔
مزید پڑھیں
-
تحریک لبیک پر پابندی ملکی سیاست پر کس طرح اثرانداز ہوگی؟
Node ID: 557706
-
ٹی ایل پی دھرنا: ’ہم تقریباً محصور ہو کر رہ گئے ہیں‘
Node ID: 558916
-
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ قومی اسمبلی میں قرارداد لانے کے علاوہ کالعدم تحریک لبیک کے جن لوگوں کے خلاف فورتھ شیڈول سمیت دیگر مقدمات درج ہیں ان کا بھی اخراج کیا جائے گا جبکہ کالعدم جماعت پورے ملک سے خاص طور پر لاہور کی مسجد سے دھرنے کو ختم کردے گی۔
تاہم یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ مظاہرین کے دباو کے تحت کسی حکومت کو اپنی پوزیشن سے پیچھے ہٹنا پڑا ہے۔ گو کہ سنہ 1977 میں تحریک نظام مصطفی کے نتیجے میں بھٹو حکومت کا تختہ الٹنا بھی مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی حکومت کے خلاف کامیابی کی ایک مثال ہے مگر پاکستان کی حالیہ تاریخ میں بھی اس طرح کی کئی مثالیں موجود ہیں۔
اسلام آباد میں زکوۃ آرڈنینس کے خلاف احتجاج
اس طرح کی ایک مثال جولائی 1980 میں اس وقت سامنے آئی جب اس وقت کے فوجی حکمران جنرل ضیا الحق نے زکوۃ و عشر آرڈنینس جاری کیا جس کے تحت بینکوں کو اختیار دیا گیا کہ وہ اکاونٹ ہولڈرز سے یکم رمضان کو زکوۃ کی کٹوتی کریں تو ملک میں کی شیعہ کمیونٹی نے اسے اپنے مسلک کے خلاف قرار دیتے ہوئے اسلام آباد کی طرف مارچ کیا۔
مفتی جعفر حسین کی قیادت میں مظاہرین نے وفاقی سیکرٹریٹ کا محاصرہ کر کے بیورکریسی کو ناکارہ بنا دیا اور کاروبار مملکت روک کر رکھ دیا۔ اس دباؤ کے بعد جنرل ضیا کی حکومت کو مظاہرین کے سامنے جھکنا پڑا اور شیعہ کمیونٹی کو زکوۃ کٹوتی سے استثنیٰ دے دیا گیا۔

اے این پی حکومت کا شدت پسندوں سے معاہدہ
سنہ 2008 کے انتخابات میں میں خیبر پختونخواہ جسے اس وقت صوبہ سرحد کہا جاتا تھا میں عوامی نیشنل پارٹی برسراقتدار آئی۔ مئی 2008 میں عوامی نیشنل پارٹی نے شدت پسندوں کے ساتھ اکیس نکاتی امن معاہدہ کیا مگر وہ زیادہ عرصہ نہ چل سکا۔
دسمبر تک تاہم شدت پسندوں نے سوات کے پچھتر فیصد پر قابضہ کر لیا تھا۔ پھر فوجی آپریشن ’راہ حق ٹو‘ کا آغاز ہوا لیکن سرحد حکومت کی شکایت کے مطابق وہ کوئی زیادہ موثر ثابت نہ ہوسکا۔ اس پر صوبائی حکومت نے فروری دو ہزار نو میں نفاذ نظام عدل پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے کالعدم تحریک نفاذ شریعت محمدی کے مولانا صوفی محمد کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کر دیئے۔ کالعدم تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ مولانا صوفی محمد نے معاہدے کے بعد پاکستان میں رائج نظام اور عدالتوں پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا تھا جس کے بعد یہ معاہدہ ٹوٹ گیا تھا اور شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا گیا۔
نواز شریف کے طالبان سے مذاکرات
جب سابق وزیراعظم نواز شریف 2013 میں تیسری بار برسراقتدار آئے تو انہوں نے ملک بھر میں جاری دہشت گردی اور بدامنی ختم کرنے کے لیے کالعدم قرار دی جانے والی تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے مذاکرات کا اعلان کیا۔ اس حوالے سے حکومت نے ایک مذاکراتی کمیٹی بھی تشکیل دی جس میں علما بھی شامل تھے۔