پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ اپنے قیام کے سات ماہ بعد ہی زوال اور انتشار سے دوچار ہو گئی ہے۔ اتحاد کی دو بڑی جماعتوں میں اعتماد کے بحران نے پی ڈی ایم کے مقاصد کو پس پشت ڈال دیا ہے۔
پیپلز پارٹی اور نون لیگ میں بڑھتی کشمکش اور دوریاں اتحاد کے مستقبل کا واضح منظر نامہ پیش کر رہی ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بننے والے احتجاجی اور سیاسی اتحاد اپنے مقاصد میں مکمل یا جزوی کامیابیوں کے بعد اندرونی خلفشار کا شکار ہوتے رہے ہیں۔
جمہوری ادوار میں ان کا مقصد انتخابی کامیابی اور آمریت میں سویلین حکومت کا قیام اور آئین کی بحالی کا مطالبہ رہا ہے۔
ماضی اور حال کی ان تحریکوں کے تجزیے کے دو پہلو ہیں، ایک نظریاتی ساخت کے لحاظ سے مختلف الخیال قوتوں کا اتحاد اور اس کا انجام، دوسرا انتخابی اور سیاسی حریفوں کی حالات کے جبر کے تحت مشترکہ جدوجہد کے نتائج و اثرات۔
مزید پڑھیں
-
کب کب حکومت مخالف اتحاد بنے؟Node ID: 506351
-
پاکستان میں سیاسی اتحاد کیوں اور کیسے ختم ہوتے ہیں؟Node ID: 535496
-
53 برس قبل کی پی ڈی ایم اور آج کا اتحاد مختلف کیسے؟Node ID: 535591
پاکستان کی تاریخ کا پہلا اتحاد مشرقی پاکستان میں بننے والا انتخابی اتحاد تھا۔ 1954 میں کرشک سرامک پارٹی، عوامی لیگ اور نظام اسلام پارٹی نے مسلم لیگ کے خلاف متحدہ محاذ یا ’جگتو فرنٹ‘ کے نام سے الائنس بنایا تھا۔
ان جماعتوں کے قائدین کے ذاتی اور سیاسی اختلافات کے باوجود الیکشن میں 309 نشستوں میں سے 223 سیٹیں اس اتحاد نے جیت لیں۔
مسلم لیگ کے صرف دس امیدوار کامیابی حاصل کر سکے۔ اس کے پارلیمانی لیڈر اور سابق وزیر اعلیٰ نورالامین ایک عام طالب علم سے شکست کھا گئے۔

مولوی فضل الحق وزیر اعلیٰ بنے مگر صرف تین ماہ بعد ہی ان پر غداری کے الزامات لگا کر صوبے میں گورنر راج لگا دیا گیا۔ جگتو فرنٹ میں اقتدار کی اندرونی کشمکش اس کے زوال کا باعث بنی۔ گورنر راج کے خاتمے کے بعد عوامی لیگ نے فضل الحق کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر دی۔ 1958 تک ان تین جماعتوں نے ایک دوسرے کے وزرائے اعلیٰ کو چین سے حکومت نہ کرنے دی۔
1965 کے صدارتی الیکشن میں ایوب خان کے خلاف متحدہ اپوزیشن کا اتحاد ہماری سیاسی تاریخ کا دوسرا انتخابی اتحاد تھا۔
16 ستمبر 1964 کو کونسل مسلم لیگ، نیشنل عوامی پارٹی، نظام اسلام پارٹی اور جماعت اسلامی سمیت دیگر پارٹیوں نے فاطمہ جناح کو اپنا صدارتی امیدوار بنایا۔ کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیز کی صدارتی امیدوار کو الیکشن میں کامیابی نہ مل سکی۔
21 مارچ کو ہونے والے قومی اسمبلی کے انتخابات میں قدآور سیاسی شخصیات خواجہ ناظم الدین، ممتاز دولتانہ، چوہدری محمد علی، مولانا مودودی، مولانا بھاشانی اور ولی خان کا انتخابی اشتراک اور اتحاد بھی ایوب خان کی کنونشن لیگ کا مقابلہ نہ کر سکا۔ حکومتی جماعت کی 126 نشستوں کے مقابلے میں متحدہ اتحاد کو صرف 13 سیٹیں مل سکیں۔
اس شکست کی دیگر دیگر وجوہات تھیں وہیں ان جماعتوں کے اندر نظریاتی، سیاسی اختلافات اور ذاتی مفادات کی ترجیح بھی اہم عنصر تھے۔ ان غیرمتوقع اور مایوس کن نتائج کے بعد اپوزیشن کے اتحاد کا شیرازہ بکھر گیا۔
پاکستان نیشنل الائنس تیسرا انتخابی اتحاد تھا جو بھٹو حکومت کے خلاف قائم ہوا۔ 1977 کے الیکشن کے بعد دھاندلی کے الزامات اور قومی اتحاد کی تحریک نے مارشل لا کی راہ ہموار کی۔ پی این اے میں بھی سیاسی اور مذہبی حریف قوتیں شامل تھیں۔

جماعت اسلامی، جمعیت علما اسلام اور جمعیت علمائے پاکستان مذہبی سیاست کی علمبردار تھیں۔ دوسری طرف نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی اور تحریک استقلال کا طرز سیاست سیکولر تھا۔
قومی اتحاد میں پہلی دراڑ اس وقت پڑی جب اس کے سیکریٹری جنرل رفیق باجوہ کی ذوالفقار علی بھٹو سے خفیہ ملاقات کی خبر منظرعام پر آئی۔ ان کی پارٹی جمیعت علمائے پاکستان نے اپنی مذہبی حریف جماعت اسلامی پر اس معاملے کو غیرضروری طور پر اچھالنے کا الزام لگایا۔
ضیا الحق نے پانچ جولائی 1978 کو کابینہ بنانے کا اعلان کیا تو پی این اے میں حکومت میں شمولیت پر اختلافات اور گہرے ہو گئے۔ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی نے پیر پگاڑا کی مسلم لیگ کو ڈسپلن کی خلاف ورزی پر پی این اے سے نکالنے کا مطالبہ کیا۔
مسلم لیگ اور جماعت اسلامی نے حکومت میں شمولیت اختیار کرلی تو قومی اتحاد کی باقی جماعتوں نے اپنا راستہ الگ کرلیا۔
16 اپریل 1979 کو قومی اتحاد کے وزرا کو کابینہ سے نکال دیا گیا تو پگاڑا لیگ اور جمعیت علمائے پاکستان نے آپس میں اشتراک کر لیا۔ سب سے زیادہ خسارے میں جماعت اسلامی تھی جسے سابق پی این اے کے دونوں دھڑے قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں آمریت کے خلاف بننے والا پہلا اتحاد 1962 میں ’نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ‘ کے نام سے قائم ہوا۔ سیاسی جماعتوں پر پابندی کی وجہ سے اس اتحاد میں اس دور کی نمایاں سیاسی شخصیات شامل تھیں۔ اس میں اکثریت مشرقی پاکستان کے سیاستدانوں اور جماعتوں کی تھی۔

این ڈی ایف کے قیام میں مولانا مودودی اور ملک غلام جیلانی نے اہم کردار ادا کیا۔ ایوب حکومت نے ’ایبڈو‘ کا شکار سیاست دانوں کو اس اتحاد سے دور کرنے کے لیے انہیں قانونی رعایتوں کا لالچ دیا تو مغربی پاکستان کے بہت سے لیڈروں نے اس اتحاد سے دوری اختیار کر کے اپنے آپ کو قانونی نااہلی سے بچایا۔
1967 میں بننے والی ’نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ‘ ماضی کے این ڈی ایف کا دوسرا جنم تھا۔ ایوب حکومت کے خلاف پارلیمانی نظام کے قیام اور صوبائی خود مختاری کے مطالبے پر بننے والی این ڈی ایم میں اس وقت کی اہم سیاسی قوتیں شامل تھیں۔
مشرقی پاکستان کی سیاسی قوتیں ون یونٹ کے خاتمے پر متفق تھیں جبکہ مغربی پاکستان کی جماعتوں میں اس مطالبے پر اندرونی اختلافات تھے، اسی وجہ سے این ڈی ایم ایوب خان کے خلاف چلنے والی تحریک میں بھی اندرونی کشمکش سے دوچار رہی۔ اس کی نسبت بھٹو کی نومولود پیپلزپارٹی نے عوامی جذبات کا بہتر انداز میں استعمال کیا۔ 1970 کے انتخابات میں این ڈی ایم کی جماعتیں بجائے کسی انتخابی اتحاد کے، ایک دوسرے کے خلاف میدان میں نکل آئیں۔
چھ فروری 1981 کو ضیا الحق کی آمریت کے خلاف قائم ہونے والا اتحاد جسے میڈیا نے ’تحریک بحالی جمہوریت‘ کا نام دیا، اس حوالے سے منفرد تھا کہ لگاتار چار سال اس کی سرگرمیاں جاری رہیں۔
مارشل لا کے خاتمے اور 1973 کے آئین کی بحالی کے مطالبے پر قائم ہونے والے اس اتحاد میں چھوٹی بڑی نو جماعتیں شامل تھیں۔ سیاسی لحاظ سے اس کی انفرادیت ماضی کے دو کٹر سیاسی حریفوں کا ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا تھا۔

پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک استقلال نے ماضی کی تلخیوں کے باوجود مشترکہ سیاسی جدوجہد کے معاہدے پر دستخط کیے۔
تحریک بحالی جمہوریت کی دیگر جماعتوں میں کونسل مسلم لیگ، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی، قومی محاذ آزادی، مزدور کسان پارٹی، پاکستان جمہوری پارٹی اور آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس شامل تھی۔ اختلافات سے بچنے کے لیے اتحاد کی صدارت ہر ماہ تبدیل ہوتی اور تمام جماعتوں کو باری باری اس کی قیادت کا موقع ملتا۔
ایم آر ڈی میں پہلی دراڑ مسلم کانفرنس کے سردارعبدالقیوم کی اتحاد سےعلیٰحدگی تھی۔ وہ مارچ کے مہینے کے لیے اس کے چیئرمین تھے۔ انہی دنوں الذوالفقار کی جانب سے پی آئی اے کے طیارے کے اغوا کا واقعہ پیش آیا۔
اس کو جواز بناتے ہوئے 21 مارچ 1981 کو ایک پریس کانفرنس کے ذریعے سردار عبدالقیوم نے بحیثیت چیئرمین اتحاد میں شامل جماعتوں کو اپنی تمام سرگرمیاں معطل کرنے کا کہا، ساتھ ہی پیپلز پارٹی کو اتحاد سے نکالنے کا مطالبہ کیا مگر اتحاد کی دیگر جماعتوں نے ان کے مطالبے کو مسترد کر دیا تو انہوں نے خود ہی علیٰحدگی میں عافیت جانی۔
ایئر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان نے اپنی کتاب ’مائی پولیٹکل سٹرگل‘ میں ان کے اس اقدام کو حکومتی ایما پر 23 مارچ کو ہونے والے احتجاج کو خراب کرنے کی کوشش قرار دیا۔

ملکی تاریخ کی اس طویل تحریک میں سب سے زیادہ سیاسی کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔ اصغر خان 16 سو تین دنوں تک اپنے گھر میں نظر بند رہے۔ نوابزادہ نصراللہ خان اور مولانا فضل الرحمان طویل عرصے تک پس دیوار زنداں رہے۔
پی ڈی ایم کے موجودہ سربراہ مولانا فضل الرحمان اپنے والد کی وفات کے بعد اپنی جماعت کے ایک دھڑے کے قائد منتخب ہوئے۔ ایم آر ڈی میں شمولیت کے بعد چوبیس فروری کو انہیں گرفتار کر لیا گیا۔
اس کے چار دن بعد 28 فروری کو ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والی ایک خبر نے ان کے بارے میں شکوک و شبہات کو جنم دیا۔ اصغر خان کے مطابق مولانا سے منسوب یہ بیان نشر ہوا کہ انہوں نے نو جماعتوں کے اتحاد کی دستاویز پر ذاتی حیثیت میں دستخط کیے ہیں نہ کہ جے یو آئی کے نمائندے کے طور پر۔
تحریک بحالی جمہوریت کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف کی پنجاب کابینہ میں شمولیت اہم واقعہ تھا۔ وہ اس وقت تحریک استقلال کا حصہ تھے۔
اصغر خان لکھتے ہیں کہ نواز شریف نے 28 مارچ 1981 کو ان کی اہلیہ آمنہ سے ملاقات میں انہیں بتایا کہ وہ پنجاب کابینہ میں شمولیت کی پیشکش پر نہ نہیں کہہ سکتے۔ اصغر خان کے مطابق ان کی اہلیہ نے انہیں یہ ’غلطی‘ نہ کرنے کا مشورہ دیا۔

دوسرا واقعہ بے نظیر بھٹو کا طویل نظر بندی کے بعد علاج کے لیے بیرون ملک جانا تھا۔
عوامی نیشنل پارٹی کی پی ڈی ایم سے علیٰحدگی آج کل سیاسی مباحث کا موضوع ہے۔ ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران 11 اگست 1983 کو حاجی غلام احمد بلور نے نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (اب عوامی نیشنل پارٹی ) کے جنرل سیکریٹری اور ایم آر ڈی کے چیئرمین کے عہدے سے استعفی دے دیا تو اس اتحاد میں شامل جماعتوں کے درمیان شکوک و شبہات کے بادل گہرے ہونے لگے۔
اصغر خان کے مطابق انہوں نے اس کی وجہ مرحوم باچا خان کے اس بیان کو قرار دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’پیپلزپارٹی اندرونی طور پر فوجی حکومت سے رابطے میں ہے۔‘
ایم آر ڈی میں تحریک استقلال اور پیپلز پارٹی میں بہت سارے امور پر اختلافات تھے۔ پیپلز پارٹی اس اتحاد کو آنے والے دنوں میں انتخابی اتحاد میں بدلنے کی خواہش مند تھی جب کہ اصغر خان اس کے برعکس اپنی ذات اور جماعت کو ضیا الحق اور مارشل لا کا متبادل سمجھتے تھے اور انہیں انتخابی اتحاد میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔
ایک موقع پر سیاسی سنسنی میں اس وقت اضافہ ہوا جب تحریک استقلال کے سیکریٹری جنرل مشیر پیش امام سے منسوب ایک خبر سامنے آئی، جس میں کہا گیا تھا کہ تحریک استقلال نے ایم آر ڈی سے اپنا راستہ الگ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
تمام اختلافات اور شکوک و شبہات کے باوجود یہ اتحاد 1985 کے انتخابات کے بعد تک قائم رہا اور آہستہ آہستہ غیر موثر ہو گیا۔
