پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور ماضی میں وزیراعظم پاکستان عمران خان کے دست راست سمجھے جانے والے جہانگیر ترین اور ان کے خاندان کے افراد کے خلاف دو نئے مقدمے درج کیے ہیں۔
اردو نیوز کو دستیاب ایف آئی آرز کے مطابق یہ دونوں مقدمے گزشتہ ہفتے 22 مارچ کو درج کیے گئے۔
ایف آئی آر کے مطابق ایک مقدمہ، جہانگیر ترین کے خلاف جاری انکوائری جو کہ اگست 2020 میں شروع کی گئی تھی اس میں ایسے شواہد پر درج کیا گیا ہے جس میں منی لانڈرنگ کے شواہد سامنے آئے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
جہانگیر ترین نااہل ہیں تو کابینہ کے اجلاس میں شرکت کیوں؟Node ID: 408586
-
22 شوگر ملز مالکان کے خلاف تحقیقات شروعNode ID: 501141
-
ترین، شریف خاندان کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہNode ID: 517961
اس ایف آئی آر میں جہانگرترین پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے جے ڈی ڈبلیو نامی پبلک کمپنی سے تین اعشاریہ چار ارب روپے فراڈ کے ذریعے نکلوا کر ایک پرائیویٹ کمپنی میں منتقل کیے جن سے براہ راست فائدہ ترین فیملی نے اٹھایا۔
ایف آئی آر کے مطابق جس پرائیویٹ کمپنی میں یہ تین اعشاریہ چار ارب روپے کاروبار کی غرض سے ڈالے گئے وہ گجرات کی فاروقی فیملی کی کمپنی ہے جو بنیادی طور پر کاغذ کا گودا بنانے والی کپمنی تھی اور فاروقی پلپ ملز پرائیویٹ لمیٹیڈ گجرات کے نام سے 1991 میں بنائی گئی۔
تاہم کمپنی لکڑی سے کاغذ کا گودا بنانے میں مکمل طور پر ناکام ہو گئی اور اس نے 1997 میں کام ختم کر دیا۔ اس طرح یہ کمپنی اپنا ٹرائل رن بھی پورا نہیں کرسکی۔
2007 میں جے ڈی ڈبلیو کے سی ای او جہانگیر خان ترین نے یہ کمپنی خرید لی اور اپنے معتمد خاص کو اس کا سی ای او بنا دیا۔ اور اس کے بعد ایک ناکام کمپنی میں ایک پبلک کمپنی کے تین ارب سے زائد روپے لگائے گئے۔ جبکہ جے ڈی ڈبلیو کے پبلک سٹیک ہولڈرز کو اس بارے میں نہیں بتایا گیا۔
2011 میں ایف پی ایم جی نامی کمپنی نے ایک مرتبہ پھر اپنا آپریشن بند کر دیا لیکن 2015 تک اس کے اکاؤنٹ میں پیسے ڈالے جاتے رہے۔ پیسوں کی اس طرح سے نقل و حمل کو جانتے بوجھتے ایک ناکارہ کمپنی میں اربوں روپے لگانا بنیادی طور پر فراڈ کے زمرے میں آتا ہے۔
