جنوبی پنجاب میں نہروں کے ارد گرد 22 ہزار کلومیٹر رقبے پر جنگلات پھیلے ہوئے ہیں۔
چار سال قبل صوبائی اسمبلی پنجاب میں ایک بل پاس ہوا تھا جس کے مطابق نہروں کے کناروں پر موجود درخت محکمہ انہار کی ملکیت ہوں گے اور ان کی حفاظت اور دیکھ بھال کی ذمہ داری بھی محکمہ انہار کے پاس ہو گی۔
لیکن محکمہ انہار نے ان جنگلات کو عملے کی کمی اور بڑے پیمانے پر درختوں کی چوری کی وجہ سے تحویل میں لینے سے انکار کر دیا اور ان کی حفاظت محکمہ جنگلات کے ذمے ہی رہی۔
ان انتظامی پیچیدگیوں کی وجہ سے گزشتہ چار سال سے نہروں کے کناروں پر موجود سوکھے درختوں کی نیلامی تاخیر کا شکار ہے۔
ایک اندازے کے مطابق جنوبی پنجاب میں مجموعی طور پر 25 لاکھ سے زائد سوکھے درخت موجود ہیں جن کی مالیت اربوں روپے میں ہے۔
محکمہ جنگلات کے مطابق ایک درخت کی قیمت 10 ہزار سے لے کر ایک لاکھ روپے تک ہے اور کچھ شیشم کے درخت ایسے بھی ہیں جن کی قیمت اس سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔
اگر تمام سوکھے درختوں کی نیلامی کی جائے تو نہ صرف اربوں روپے خزانہ میں جمع ہوں گے بلکہ ان کی جگہ نئے درخت لگانے کے ساتھ ساتھ محکمہ جنگلات کو مالی بحران سے نکلنے میں بھی مدد ملے گی۔
عملے کی کمی
رحیم یار خان میں 50 ہزار ایکڑ پر جنگلات ہیں، ان جنگلات میں نہروں کے کنارے اور سڑکوں پر چار لاکھ سوکھے درخت ہیں۔
رینج فارسٹ آفیسر رحیم یار خان راجہ محمد جاوید کا کہنا ہے کہ رحیم یار خان میں ہر سال 8 لاکھ پودے لگائے جاتے ہیں ان میں سے زیادہ تعداد شیشم، کیکر اور سفیدہ کے پودوں کی ہے لیکن محکمہ جنگلات کے پاس عملے کی بہت کمی ہے جس سے پودوں اور جنگلات کی حفاظت کے لیے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’محکمہ جنگلات میں اس وقت 60 فیصد ملازمین کی کمی ہے، رحیم یار خان میں جہاں 25 بلاک آفیسر ہونے چاہییں وہاں صرف پانچ بلاک آفیسر ہیں۔ اسی طرح 40 فیصد گارڈز کی کمی ہے۔‘
فاریسٹ بلاک آفسیر کے مطابق درخت نیلامی نہ ہونے کے باعث بہت سارے درخت چوری ہو رہے ہیں (فوٹو: اردو نیوز)
محکمہ جنگلات کے ایک اور اعلٰی عہدیدار نے بتایا کہ ان کے ایک گارڈ کے ذمے حفاظت کے لیے کئی کئی کلومیٹر کا علاقہ ہوتا ہے جب کہ ان کے پاس ٹرانسپورٹ کی کوئی سہولت موجود نہیں ہوتی۔
درخت چوری کی روک تھام ایک پیچیدہ عمل
بہاولپور سے تعلق رکھنے والے فاریسٹ بلاک آفسیر کے مطابق درخت نیلامی نہ ہونے کے باعث بہت سارے درخت چوری ہو رہے ہیں اور محکمہ اپنے محدود وسائل اور قانونی پیچیدگیوں کے باعث ان قیمتی درختوں اور لکڑیوں کو بچانے میں مشکلات کا شکار ہے۔
ملتان کے محکمہ جنگلات کے اعلی افسر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’محکمے میں نہ صرف گارڈز، بلاک آفسیرز کی کمی ہے بلکہ رینج آفسیرز نہ ہونے کے برابر ہیں جنوبی پنجاب کی زیادہ تر تحصیلوں میں بلاک افسر رینج افیسر کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔‘
دوسری طرف ’کلین اینڈ گرین‘ منصوبے کے تحت ’بلین ٹریز پنجاب‘ پروگرام کے لیے رواں مالی سال میں کوئی رقم جاری نہیں کی گئی، جس کی وجہ سے نئے پودے لگانے اور ان کی حفاظت کا عمل بھی مشکلات کا شکار ہے۔