Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
پیر ، 09 جون ، 2025 | Monday , June   09, 2025
پیر ، 09 جون ، 2025 | Monday , June   09, 2025

تین ماہ میں فروخت پر ٹیکس، کیا نئی گاڑیوں کی قیمتیں بڑھیں گی؟

نئے ٹیکس کے بعد 1000 سی سی تک کی گاڑی پر 50 ہزار، 2000 سی سی سی پر ایک لاکھ جبکہ 2000 سے زائد کی نئی گاڑی کی تین ماہ میں فروخت پر دو لاکھ ٹیکس ادا کرنا ہوگا (فوٹو: فری پک)
وفاقی حکومت نے کسٹم ایکٹ میں آرڈیننس کے ذریعے ترمیم کرتے ہوئے نئی گاڑیوں کو تین ماہ کے اندر فروخت کرنے پر دو لاکھ روپے تک کا انکم ٹیکس لاگو کردیا ہے۔  
حکومت کی جانب سے لاگو کیے گئے نئے ٹیکس کے بعد 1000 سی سی تک کی گاڑی پر 50 ہزار، ایک سے دو ہزار سی سی سی گاڑی کی فروخت پر ایک لاکھ جبکہ دو ہزار سے زائد سی سی سی کی نئی گاڑی کو تین ماہ کے اندر فروخت کرنے پر 2 لاکھ روپے کا ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔
وفاقی حکومت کی جانب سے آرڈیننس کے ذریعے لاگو کیے جانے والے نئے ٹیکس کا مقصد گاڑیوں کی بلیک مارکیٹ میں فروخت اور ’اون منی‘ کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔  

گاڑیوں کی بلیک مارکیٹ میں فروخت کیسی کی جاتی ہے؟  

اگر آپ پاکستان میں نئی گاڑی خریدنا چاہتے ہیں اور آپ کے پاس وسائل بھی ہیں تو آپ کو کسی بھی شو روم سے فوری طور پر نئی گاڑی نہیں ملے گی، بلکہ بکنگ کروانا ہوگی اور ڈیلیوری میں چھ سے آٹھ ماہ کا وقت لگ سکتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب پوری رقم ادا کی جا رہی ہے تو اتنا انتظار کیوں؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے آل پاکستان موٹرز ڈیلر ایسوسی ایشن ایچ ایم شہزاد نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’شو رومز میں گاڑیوں کی بکنگ مختلف لوگوں نے پہلے سے کی ہوتی ہے اور اگر گاڑی کی اصل قیمت سے زائد رقم (اون منی) ادا کر دی جائے تو فوری طور پر گاڑی حوالے کر دی جائے گی۔‘  
ایچ ایم شہزاد نے اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں گاڑیاں ضرورت سے کئی گنا کم گاڑیاں تیار کی جاتی ہیں تاکہ طلب اور رسد میں فرق آئے، جس سے نہ صرف نئی گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ پرانی گاڑیوں کی قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں۔‘  

پاکستان میں نئی گاڑی کے لیے چھ سے آٹھ ماہ انتظارکرنا پڑتا ہے یا پھر اون منی ادا کرنا پڑتی ہے (ٖفوٹو: اے ایف پی)

ان کے بقول ’حکومت کا نئی گاڑی کو تین ماہ کے اندر فروخت کرنے پر ٹیکس لاگو کرنے کا مقصد گاڑیوں کی بلیک مارکیٹ کی فروخت کی حوصلہ شکنی ہے، جس سے سب سے زیادہ متاثر عام خریدار نہیں بلکہ وہ لوگ ہوں گے جو نئی گاڑیوں کے کاروبار میں سرمایہ کاری کرتے ہیں اور بلیک مارکیٹ میں انہیں فروخت کیا جاتا ہے۔
’اکثر سرمایہ کار مختلف ناموں سے گاڑیاں رجسٹرڈ کروا لیتے ہیں اور پھر ’اون منی‘ رکھ کر اسے آگے فروخت کر دیا جاتا ہے، جبکہ حکومت چاہتی ہے کہ اصل مالک کے نام پر ہی گاڑی رجسٹرڈ کی جائے۔‘  
نیا ٹیکس لاگو کرنے سے کیا بلیک مارکیٹ میں گاڑیوں کی فروخت میں کمی آئے گی؟ 
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے پاکستان الیکٹرک وہیکلز اینڈ ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے سیکریٹری شوکت قریشی کہتے ہیں کہ نئی ٹیکس پالیسی سے بلیک مارکیٹ میں گاڑیوں کی فروخت میں کمی آ سکتی ہے لیکن اس سے مکمل طور پر خاتمہ ممکن نہیں۔

حکومت کے مطابق نئے ٹیکس کا مقصد گاڑیوں کی بلیک مارکیٹ میں فروخت اور ’اون منی‘ کی حوصلہ شکنی کرنا ہے (فوٹو: اے ایف پی)  

بقول ان کے ’حکومت نے پہلے بھی اس قسم کے اقدامات کیے اور بکنگ کے لیے شناختی کارڈ کی شرط عائد کر دی تھی تاہم اس میں بھی راستہ نکال لیا گیا اور سرمایہ کاری کرنے والوں نے مختلف لوگوں کے شناختی کارڈز پر گاڑیاں بک کروانا شروع کر دیا، اب ’اون منی‘ جو کہ 6 سے 8 لاکھ روپے ہے، اسے کم کر کے گاڑی کی رجسٹریشن تین ماہ کا وقت گزرنے کے بعد کر دی جائے گی۔‘  
شوکت قریشی کے مطابق بلیک مارکیٹ میں فروخت کو روکنے کے لیے تین ماہ کی مدت رکھنا انتہائی کم ہے۔
ان کے مطابق ’اس شرط کو بڑھا کر کم از کم دو سال کیا جانا چاہیے تاکہ جو بھی نئی گاڑی خریدے وہ کم از کم دو سال تک گاڑی کو فروخت نہ کر سکے‘  
آل پاکستان موٹرز ڈیلرز ایسوسی ایشن کے ایچ ایم شہزاد کہتے ہیں کہ تین ماہ کی شرط لاگو کرنے سے گاڑیوں کی بلیک مارکیٹ میں فروخت میں کوئی کمی نہیں آئے گی، ‘جب تک اصل خریدار کے نام پر بکنگ نہیں کی جاتی تب تک گاڑیوں کی قیمتوں میں مصنوعی اضافہ ہوتا رہے گا۔‘  

’اکثر سرمایہ کار مختلف ناموں سے گاڑیاں رجسٹرڈ کروا لیتے ہیں اور پھر ’اون منی‘ رکھ کر اسے آگے فروخت کر دیا جاتا ہے‘ (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا کہ نادرا کے ڈیٹا بیس سے ایسا نظام متعارف کروایا جائے جس سے اصل خریدار کا اندازہ ہو سکے اور بلیک مارکیٹ میں گاڑیوں کی فروخت کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔  

نئے ٹیکس سے گاڑیوں کی قیمتوں پر کیا فرق پڑے گا؟ 

ایچ شہزاد کہتے ہیں گاڑیوں کی قیمتوں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ اس کا تعلق براہ راست کمپنی نہیں بلکہ ’مڈل مین‘ سے ہے۔  
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی کے لیے زیادہ سے زیادہ کمپنیوں کو مینوفیکچنرگ کی اجازت دینی چاہیے تاکہ مقابے کی فضا قائم ہو اور کمرشل استعمال کے لیے بیرون ملک سے گاڑیوں کی درآمد پر عائد پابندی اٹھائی جائے، اس سے نہ صرف قیمتوں میں کمی آئے گی بلکہ مقابلے کی فضا کے باعث معیاری گاڑیاں تیار کی جائیں گی۔

شیئر: