منزلیں کھونے اور خود کو اندھیروں کے سپرد کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا
تسنیم امجد -- یاض
وطن عزیز کے آئین میں درج ہے کہ پاکستان ایک فلاحی ریاست ہے جس کا مقصد عوام کی زیادہ سے زیادہ فلاح ہے۔ اس فلاح کا بنیادی طور پر انحصار قانون کی حکومت پر ہے یعنی جبر پر قائم ہر قسم کے نظام حکومت کی نفی ہے ، تمام شہری قانون کی نظر میں مساوی حیثیت رکھتے ہیں، کوئی فرد اس سے بالا نہیں ۔
یہاں سوال یہ ہے کہ دھنک کے صفحے پر دی گئی تصویر کیا ایک فلاحی ریاست کی ترجمان ہے؟ ان کے چہروں پر بے بسی کسی غلامی کی ترجمان ہے ، نہ جانے یہ سب کیا ہے۔یہ تو آزاد ملک کے شہری ہیں لیکن ریاست عوام کی بھلائی کا اسی صورت خیال رکھ سکتی ہے اگر اقتدار کا سرچشمہ عوام ہوں، وہ براہ راست اپنے نمائندوں کے ذریعہ حکومت کا سارا نظام چلائیں ۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے نمائندے خود کو عوام کا خادم سمجھیں اور اپنی کارکردگی کے حوالے سے عوام کے سامنے جوابدہ ہوں۔ اسی طرح کے نظام میں یہ لوگ عوام کے پاس اگلے انتخاب میں ووٹ لینے جاسکتے ہیں لیکن یہاں تو یہ ممکن ہی نہیں۔ نمائندے منتخب ہونے کے بعد خود کو عوام کا آقا تصور کرنے لگتے ہیں۔
ہمارے ہاں اکثر دیہی آباد ی صرف اس لئے غربت کی چکی میں پستی ہے کیونکہ وہ مختلف مقدموں میں بری طرح پھنسی ہوتی ہے ، عدالتی چکروں میں معاشی حالت مزید خراب ہو جاتی ہے ، مقدمہ بازی کی گرفت بہت مضبوط ہوتی ہے ، اکثر لوگ کہتے ہیں کہ انسان بیماری اور مقدمہ سے بچا رہے تو خوش نصیب ہے ۔
جمہوری ملک ہونے کے باوجود عدالتوں کے باہر احاطوں میں عوام دن بھر پڑے رہتے ہیں ۔اگر بدقسمتی سے ہڑتال کے باعث عدالتیں بند ہوں تو وہ میلوں کا سفر طے کرنے والے بے بسی سے سرپکڑ ے دکھائی دیتے ہیں۔ کرائے کے پیسے کہاں سے آئیں اور رات گزارنے کے لئے وہ کس کا دروازہ کھٹکھٹائے؟
حال ہی میں خبر سنی کہ عائشہ بیگم بہت بیمار ہیں اور وہ اپنے مقدمے کی پاور آف اٹارنی کے لئے کسی کا سہارا ڈھونڈھ رہی ہیں۔ جونوجوان اس مقصد کے لئے ان کے پاس گئے، انکار کرکے ہی آئے کیونکہ جائداد کے حصول کا مقدمہ گزشتہ 20برس سے عدالت میں تھا۔ بے چاری عائشہ ناامیدی کے عالم میں بولیں، ایک دو جج تو تبدیل ہوئے جس کے بعد مقدمہ نئے سرے سے چلا۔ مخالف پارٹی کا زور زیادہ ہے اسی لئے شنوائی نہیں ہورہی۔
انصاف کا حصول بنیادی حقوق میں اہمیت کا حامل ہے ، پاکستان میں سوشل اور پولیٹیکل ڈھانچہ بھی مخصوص لوگوں کے قبضے میں ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہی جمہوریت چلارہےں۔ اپنی مرضی سے نمائندوں کا انتخاب اور پھر ان کی لگاموں پر گرفت، ان کا پرانا کلچر ہے۔
احتساب اور جوابدہی کا فقدان اس کلچر کو ہوا دے رہا ہے ، معاشرے میں معاشی اور جسمانی طورپر طاقتور اور کمزور افراد اکٹھے بستے ہیں۔ بعض شخصیات کی وجہ سے لاقانونیت کو ہوامل رہی ہے ۔اس کی ذمہ دار سیاسی جماعتیں ہیں۔ یہ جمہوریت کی کامیابی کی ذمہ دار ہیں۔ یہی عوام میں سوجھ بوجھ پیدا کرتی ہیںاور یہی انتشار کا باعث بھی بنتی ہےں۔ انتظامی عہدیداروں کا دباو اکثر غیر ذمہ دارانہ تقرری کا باعث بنتا رہا ہے۔
یونیورسل ڈیکلیریشن آف ہیومین رائٹس میں بھی درج ہے کہ قانون کی نظر میں بلاتفریق سب برابر ہیں۔بدقسمتی سے ہمارا المیہ یہ ہے کہ خود ملک کی قیادت اور سیاستدان اسے دل سے اپنانے اور اپنا کہنے کے لئے تیار نہیں۔ اس طرح کسمپرسی مقدر کا حصہ بن چکی ہے، بظاہر رہنما دعوے تو بہت کرتے ہیں لیکن عملاً قوم سے کوئی محبت نہیں کرتا۔ جو قومیں ہم سے پیچھے تھیں، آج ترقی کی دوڑ میں آگے نکل چکی ہیں۔ یوں لگتا ہے ہم راہوں سے بھٹک چکے ہیں۔ ہر کام اپنی اپنی مرضی کے مطابق ہورہے ہیں۔ ہوش مند جب راہ راست کی بات کرتے ہیں تو ان کا مضحکہ اڑایا جاتا ہے ، ان غرباءکے حکمران ارب پتی ہیں جبکہ ان کا پرسانِ حال کوئی نہیں۔ لوگوں کو جاہل رکھنے کا مقصد یہی ہے کہ وہ منشور کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کا مواخذہ نہ کرسیکیں۔
دہشت گردوں کو علم ہے کہ ہمارا قانون کمزور ہے ، عدالتی کارروائیاں برسوں چلتی ہیں ، اسی لئے وہ آزادی اور دلیری سے بڑے سے بڑا جرم کر گزرتے ہیں ۔ جیل جانے کے بعد بھی کسی نہ کسی بہانے چھوٹ جاتے ہیں۔فوری انصاف معاشرے کی وہ بنیاد ہے جس پر اس کی عمارت استوار ہوتی ہے ۔ ہمارا نظام آج تک بڑے بڑے قاتلوں اور مقدموں کا فیصلہ نہیں کرسکا۔ ان حالات میں عوام کو باشعور ہونا چاہئے۔ منزلیں کھونے سے اور خود کو اندھیروں کے سپرد کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، اگر صاحبان ثروت و اقتدار اپنا ناجائز حق حاصل کرلیتے ہیں تو غرباءبھی اپنا جائز حق یکجہتی اور جذبہ اخوت کو بروئے کار لاتے ہوئے حاصل کرنے میں پیچھے نہ رہیں۔ قومی و ملی فرائض پر پورا اترنے کے لئے جذبے کافی ہیں۔ ورنہ ، بقول شاعر:
ڈھونڈتا پھرتا ہوں اے اقبال اپنے آپ کو
آپ ہی گویا مسافر، آپ ہی منزل ہوں میں
******