میانمار بھر میں لاکھوں افراد نے فوجی بغاوت کے خلاف سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق انٹرنیٹ کی بندش بھی فوج کی جانب سے آنگ سان سوچی کو ہٹائے جانے کے خلاف لوگوں کے غم و غصے کو کم کرنے میں ناکام رہی ہے۔
بعض اندازوں کے مطابق اتوار کو صرف ینگون میں مظاہرین کی تعداد ایک لاکھ تھی اور دوسرے شہروں میں بھی بڑے بڑے مظاہرے کیے گئے۔
مزید پڑھیں
-
میانمار میں مارشل لا: سکیورٹی کونسل کا اجلاس طلبNode ID: 537706
-
میانمار میں ’استحکام یقینی بنانے کے لیے‘ فیس بک بلاکNode ID: 538251
ینگون میں سٹی ہال کی جانب مارچ کرتے ہوئے مظاہرین نے ’جسٹس فار میانمار‘ کے بینرز اٹھا کر شدید نعرے بازی کی۔ دوسرے لوگ سوچی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کے لال جھنڈے لہراتے رہیں۔
مظاہرے میں موجود یونیورسٹی کے ایک 20 سالہ طالب علم نے کہا کہ ’میں فوجی بغاوت کو مکمل رد کرتا ہوں اور میں کریک ڈاؤن سے خوفزدہ نہیں ہوں۔ جب تک ماں سوچی آزاد نہیں ہوتی میں روز مظاہرے میں آؤں گا۔‘
تاہم ینگون میں مظاہرین شام کو اس اعلان کے بعد منتشر ہو گئے کہ وہ کل پیر کو مقامی وقت کے مطابق صبح دس بجے دوبارہ جمع ہوں گے۔
