’دس سال پہلے والد کا انتقال ہوا تو میرے بھائی بیرون ملک سے وطن واپس آئے۔ وفات کے کچھ دنوں بعد والد کی جائیداد کی قانونی ورثا میں تقسیم پر بات ہوئی تو کچھ تنازعات پیدا ہوگئے۔ خاندان نے معاملہ سلجھانے کے لیے وکیل سے مشورہ کیا اور عدالتی فیصلے کے ذریعے جائیداد کی تقسیم کرنے کا طے پایا۔ لیکن دس سال گزر جانے کے باوجود فیصلہ نہیں ہو سکا۔ اس لیے بھائیوں کے علاوہ کوئی بھی والد کی جائیداد سے حصہ نہیں لے سکا۔‘
یہ کہنا ہے اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی صائمہ انور کا جن کے والد کی وفات 2010 میں ہوئی۔ لیکن دس سال گزر جانے کے باوجود وہ وراثتی جائیداد کو اپنے نام منتقل کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔
مزید پڑھیں
-
نادرا نے 10 ہزار سے زائد شناختی کارڈ بلاک کردیئےNode ID: 391201
-
ایمرجنسی ہیلپ لائن پر ’پرینک کالز‘ کرنے والوں میں کمی کیسے آئی؟Node ID: 533796
-
وزیراعظم کا وزیرستان میں فور جی انٹرنیٹ کی فراہمی کا اعلانNode ID: 533996
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’بھائی بیرون ملک ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے مقدمہ آگے ہی نہیں بڑھ سکا۔ وکیل ہر بار نئی تاریخ حاصل کرتا ہے۔ بھائیوں کے بچے تو اسی مکان میں رہ رہے ہیں جو والد صاحب نے بنایا تھا اور باقی جائیداد بھی ان کے پاس ہے لیکن بہنوں کو جہیز کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔‘
یہ مسئلہ صرف صائمہ انور کا ہی نہیں بلکہ پاکستان میں ہر دوسرا خاندان ایسے ہی وراثتی تنازعات کا شکار ہوکر باہمی چپقلش اور قانونی جنگ میں الجھ جاتا ہے۔
بہت سے خاندان وراثت کی قانونی طور پر دستاویزی منتقلی کے بجائے زبانی تقسیم کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ قانونی پیچیدگیوں سے بچ سکیں۔ ایسا کرنا مستقبل میں ان کی آنے والی نسلوں کے لیے مسائل کا سبب بنتا ہے۔
ان مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کی وفاقی حکومت نے وفات پا جانے والے کسی بھی پاکستانی شہری کے ورثا کو جائیداد کی قانونی طریقے سے منتقلی کے لیے آسان ترین نظام وضع کیا ہے۔ جس کے تحت متوفی کے قانونی ورثا کو جائیداد کی منتقلی کا عمل برسوں کے بجائے اب دنوں میں مکمل ہو سکے گا۔
نئے نظام کے تحت نادرا ملکی تاریخ میں پہلی بار بائیومیٹرک تصدیق کے ذریعے ’سکسیشن سرٹیفکیٹس‘ اور ’لیٹرز آف ایڈمنسٹریشن‘ کا اجراء کرے گا۔
