پاکستان کی سپریم کورٹ نے سینیٹ کے انتخابات شو آف ہینڈز کے ذریعے کروانے سے متعلق سماعت کرتے ہوئے چیئرمین سینیٹ، سپیکر قومی اسمبلی، الیکشن کمیشن سمیت دیگر کو نوٹسز جاری کر دیے ہیں۔
پیر کو سینیٹ کے انتخابات سے متعلق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے پیر کے روز صدارتی ریفرنس کی پہلی سماعت ہوئی۔
سماعت کے دوران بینچ کے رکن جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ جہاں تک ہمیں معلوم ہے ووٹوں کی خرید و فروخت کے خاتمے پر تمام فریقین متفق ہیں، جس پر اٹارنی جنرل جواب دیا کہ یہ معاملہ اس قدر سادہ نہیں جس طرح عدالت بیان کر رہی ہے۔
مزید پڑھیں
-
سینیٹ الیکشن پھر سے نشانے پر؟Node ID: 220786
-
سینیٹ الیکشن وقت سے پہلے کرائیں گے: عمران خانNode ID: 525356
یاد رہے کہ وزیرِاعظم کی تجویز پر سینیٹ کے الیکشن اوپن بیلٹ یا شو آف ہینڈز کے ذریعے کرانے کی اہمیت پر صدر پاکستان نے سپریم کورٹ سے رائے مانگی تھی۔
سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے اٹارنی جنرل خالد جاوید سے کہا کہ ’میثاق جمہوریت میں سیاسی جماعتوں نے ووٹوں کی خرید و فروخت روکنے پر اتفاق رائے کیا تھا، آپ اس معاملے پر تمام سیاسی جماعتوں کے مابین قومی اتفاق رائے کیوں پیدا نہیں کرتے۔‘
اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ ’صدر کی جانب سے دائر ریفرنس آرٹیکل 226 کی تشریح کے لیے دائر کیا گیا ہے۔ ریفرنس میں سینیٹ الیکشن خفیہ رائے شماری سے نہ کرنے کا قانونی سوال اٹھایا گیا ہے۔ سوال ہے کہ کیا آرٹیکل 226 کا اطلاق صرف آئین کے تحت ہونے والے الیکشن پر ہوتا ہے؟‘
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ’آپ کے مطابق آئین اور قانون کے تحت انتخابات کا مخلتف طریقہ کار ہے۔ آپ چاہتے ہیں عدالت آئین اور قانون کے تحت ہونے والے انتخابات میں فرق واضح کرے؟ آئین یا قانون میں ترمیم کے لیے پارلیمنٹ کے پاس اختیار ہے۔‘

بینچ کے رکن جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ ’عدالت اس تضاد میں کیوں پڑے؟‘
جسٹس اعجاز الاحسن نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا قومی اسمبلی کا انتخاب آئین کے تحت نہیں ہوتا؟
جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ’عام انتخابات الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت ہوئے آئین کے نہیں۔‘
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’آئین میں سینیٹ اور اسمبلی انتخابات کا ذکر ہے۔ انتخابات کیسے ہونے ہیں یہ بات الیکشن ایکٹ میں درج ہو گی۔ مقامی حکومتوں کے انتخابات کا آئین میں ذکر نہیں۔ الیکشن ایکٹ بھی آئین کے تحت ہی بنا ہوگا۔ کیا کوئی قانون آئین سے بالاتر ہو سکتا ہے؟‘
اٹارنی جنرل نے الیکشن کمیشن اور الیکٹورل کالج کو نوٹس جاری کرنے کی استدعا کی تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تمام ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کر دیتے ہیں، عدالتی معاون بھی مقررکرتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے چیئرمین سینیٹ، سپیکر قومی اسمبلی، الیکشن کمیشن، وفاقی و صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز اور صوبائی اسمبلیوں کے سپیکرز کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔
