پی ڈی ایم کا لاہور جلسہ بالآخر ہو ہی گیا، اور اس جلسے کے بارے میں اب حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کامیابی اور ناکامی کی ایک طویل بحث شروع ہو چکی ہے۔
کامیابی اور ناکامی کی بحث سے ذرا ہٹ کے کورونا کے دور میں یہ ایک بڑی سیاسی سرگرمی تھی جس میں پنجاب بھر سے آئے سیاسی کارکنوں نے شرکت کی۔
جلسہ گاہ میں لوگ صبح 10 بجے کے بعد ہی آنا شروع ہو گئے تھے لیکن یہ ایسے لوگ تھے جو دور دراز کے علاقوں سے آئے تھے۔
مزید پڑھیں
-
’استعفوں کے ساتھ جنوری کے آخر یا فروری میں اسلام آباد جائیں گے‘Node ID: 524541
-
’سوال تو ہوں گے، یہ نہ کہیں کہ میں نام کیوں لیتا ہوں‘Node ID: 524566
پی ڈی ایم کے رہنماؤں کے سابق سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے گھر ظہرانے کے بعد جب سٹیج سے اعلان ہوا کہ قائدین پہنچنے والے ہیں تو اس وقت ایک طرح سے جلسہ گاہ بھر چکی تھی۔
جلسہ گاہ کے داخلی راستوں پر جگہ جگہ کھانے پینے کی اشیا کے سٹالز لگے تھے اور ان میں رش تھا کہ ختم ہونے میں نہیں آرہا تھا۔
ایک ٹھیلے والے نے بتایا کہ ’سچی بات تو یہ ہے کہ جلسے تو ضرور ہونے چاہییں کیونکہ ایک دن میں جتنا سامان بک جاتا ہے ایک ایک ہفتے میں نہیں بکتا۔‘
جلسے کے شرکا کورونا سے متعلق کوئی سنجیدہ دکھائی نہیں دیے۔ جنہوں نے ماسک پہنے ہوئے تھے وہ بھی ٹھوڑیوں تک تھے، اور داخلی راستوں پر سب سے زیادہ ماسک بیچنے والے ہی نظر آرہے تھے۔
ایک دلچسپ بات یہ تھی کہ جلسے کا کل وقت دس سے بارہ گھنٹے تھا۔ اس دوران جتنے لوگ جلسہ گاہ کے اندر جاتے دکھائی دیے اتنے ہی ہر وقت جلسہ گاہ کے باہر جاتے دکھائی دیتے رہے۔ لاہور کے ن لیگ کے روایتی ورکرز اسی طرح موٹر سائیکلوں پر کاغذی اور گتے کے شیروں کے مجسموں کے ساتھ ادھر سے ادھر جاتے اور بھاگتے دکھائی دیے۔ وہ جلسے کی تقاریر سننے سے زیادہ نعرے لگانے اور اپنی حاضری منوانے میں دلچسپی لیتے دکھائی دیے۔

کچھ بزرگ کارکن منچلوں کے اندر باہر جانے کو ناگواری سے دیکھ رہے تھے۔ ایک بزرگ تو زچ ہو کر کہہ رہے تھے کہ ’یہ جلسہ ہے یا میلہ لوگ ٹِک کے جلسہ سن ہی نہیں رہے۔‘
جلسے میں لاہوری رنگ بھر پور طریقے سے نظر آرہا تھا۔ شام کے بعد جیسے ہی خنکی بڑھی تو لوگوں کی آنیوں جانیوں کی حرکت بھی تیز ہو گئی کیوں کہ اب لہو گرم رکھنے کے لیے باضابطہ بہانہ دستیاب ہو گیا تھا۔
شیر شیر کے نعروں کے ساتھ مینار پاکستان کے اردگرد کی سڑکوں پر مقابلے جاری تھے اور اندر گراؤنڈ میں سیاسی بیانیوں کا مقابلہ جاری تھا۔ ساؤنڈ سسٹم کی نئی کمپنی نے ڈی جے بٹ کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔
جلسہ گاہ کے اندر لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت جگہ جگہ آگ جلا کر شدید سردی کو مات دینے کی کوشش جاری رکھی۔ البتہ سٹیج کے سامنے جن کارکنوں نے مورچہ سنبھالا ہوا تھا وہ مکمل چارج دکھائی دے رہے تھے اور جلسے کی سنجیدگی اور قیادت کی تقاریر پر سب سے زیادہ ری ایکشن وہی دے رہے تھے۔
