چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان کے پائلٹس کے جعلی لائسنس ہونے کے بیان پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 262 پائلٹس کے جعلی لائسنسز کا بیان دیا گیا اور آج کہہ رہے ہیں صرف 82 مشکوک ہیں، اس بیان سے قومی ایئرلائن کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ منگل کو پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کے پائلٹ سید ثقلین اختر کی لائسنس معطل ہونے اور ڈی جی سول ایوی ایشن کی تعیناتی سے متعلق درخواست پر سماعت کر رہے تھے۔
مزید پڑھیں
-
پی آئی اے میں ’جعلی ڈگری‘ والے برطرفNode ID: 431521
-
پی آئی اے پر پابندی برقرار رہنے کا خدشہNode ID: 513636
سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سیکرٹری ایوی ایشن سے استفسار کیا کہ جعلی لائسنس رکھنے والے کتنے پائلٹس تھے؟
سیکرٹری ایوی ایشن نے بتایا کہ 262 کی فہرست تھی جن میں سے 50 پائلٹس کے لائسنس منسوخ کر دیے گئے ہیں جبکہ مزید 32 پائلٹس کے لائسنس مشکوک ہیں۔
چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بتائیں کتنے پائلٹس کے جعلی لائسنس ہونے کا بیان پارلیمنٹ کے فلور پر دیا گیا؟ کس نے 262 پائلٹس کے لائسنس جعلی ہونے کا بتایا؟
سیکرٹری سول ایوی ایشن نے بتایا کہ ایوی ایشن ڈویژن نے اس حوالے سے رپورٹ دی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایوی ایشن ڈویژن کا اس میں کوئی کردار نہیں ہے۔ 50 کے لائسنس منسوخ کیے گئے ہیں اور 32 مشکوک ہیں پھر کیسے 262 پائلٹس کے لائسنس جعلی ہونے کا بیان دیا گیا؟
سیکرٹری سول ایوی ایشن نے عدالت کو بتایا کہ ڈی جی سول ایوی ایشن نے اس کی منظوری دی تھی۔

عدالت نے کہا کہ ڈائریکٹر جنرل موجود ہی نہیں ہے، اس کا چارج سیکرٹری کو کیسے دیا جاسکتا ہے؟ وفاقی حکومت ڈائریکٹر جنرل کی تعیناتی کرتی یے اس کے پاس اضافی چارج دینے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قومی ایئرلائن کی ساکھ متاثر کی گئی، پارلیمنٹ کے فلور پر 262 پائلٹس کے جعلی لائسنس کا کہا گیا اور اب کہہ رہے ہیں کہ صرف 82 لائسنس کا معاملہ ہے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ پائلٹس کے جعلی لائسنسز کے معاملے پر غفلت برتی گئی۔
’میں نے سیکرٹری سے کہا تھا کہ جن کے لائسنسز جعلی ہیں ان کے نام سامنے لائیں اس طرح تو پوری دنیا میں ہمارے پائلٹس کے لائسنسز منسوخ ہو جائیں گے۔‘
