پاکستان مسلم لیگ ن بلوچستان کے صوبائی صدر اور سابق وفاقی وزیر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقادر بلوچ نے کوئٹہ میں ایک تقریب کے دوران پارٹی سے باقاعدہ مستعفی ہونا کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارٹی کے سربراہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے افواج پاکستان کو بغاوت پر اکسایا۔
سابق وزیراعلیٰ بلوچستان اور مسلم لیگ ن کے رکن اسمبلی نواب ثناء اللہ زہری نے بھی احتجاجاً ن لیگ کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی چھوڑ نے کا اعلان کیا ہے تاہم انہوں نے صوبائی اسمبلی کی رکنیت کی وجہ سے پارٹی سے استعفیٰ کا اعلان نہیں کیا۔
ثناء اللہ زہری کا کہنا تھا کہ نوا ز شریف مودی کے ایجنڈے پر چل رہے ہیں انہوں نے سب کو مفادات کی بھینٹ چڑھایا آج کے بعد ان کا سابق وزیراعظم سے کوئی واسطہ نہیں رہے گا۔
مزید پڑھیں
-
’انڈیا بلوچستان میں سالانہ 500 ملین ڈالرخرچ کر رہا ہے‘Node ID: 511556
-
صوبہ بلوچستان میں طالبات کے لیے وظائف کا اعلانNode ID: 511711
-
پیدل لانگ مارچ بلوچستان میں احتجاج کا مؤثر ذریعہ کیوں؟Node ID: 515126
مسلم لیگ ن کے دونوں رہنماؤں نے یہ اعلانات کوئٹہ کے میٹروپولیٹن کارپوریشن کے سبزہ زار میں ایک اجتماع سے خطاب میں کیے جس میں سینکڑوں افراد شریک تھے۔ اس موقع پر ن لیگ کے کئی دیگر صوبائی اور ضلعی عہدے داروں نے بھی پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا۔
عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ نواب ثناء اللہ زہری کو کوئٹہ جلسے میں نہ بلانے اور پارٹی کی خواتین کارکنوں کی توہین ایسے مسائل تھے جس پر پارٹی قیادت معذرت کر لیتی تو شاید وہ مان جاتے اور پارٹی کا حصہ رہتے مگر اس وقت حد ہوگئی جب نواز شریف نے کوئٹہ میں پی ڈی ایم جلسے سے اپنی تقریر میں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کا نام لے کر پاکستان کے تمام مسائل کی وجہ انہیں قرار دیا۔ پھر انہوں نے افواج پاکستان کے ماتحت افسران اور جوانوں سے اپیل کی کہ وہ آرمی چیف کے احکامات کو ماننے سے پہلے دیکھیں کہ وہ آئینی ہیں یا نہیں۔ یعنی ہر حکم کو آئینی ہونے یا نہ ہونے کے معیار پر پرکھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسی تقاریر کا نتیجہ فوج کے اندر بغاوت کی صورت میں نکلے گا۔ یہ بیج بغاوت کے لیے بویا گیا۔ بغاوت اگر ملک میں آ گئی تو ہماری حالت میں بھی شام اور لیبیا کی جیسی ہوگی۔

لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقادر بلوچ نے کہاکہ آئین کی تشریح اور کسی بات کے آئینی یا آئینی نہ ہونے کے بارے میں عدالتیں بروقت فیصلہ نہیں کرسکیں تو ایک عام سپاہی اس کا فیصلہ کیسے کرسکتا ہے۔ پرویز مشرف کے مارشل لاء کے بارے میں بھی اکیس سال بعد سپریم کورٹ بھی فیصلہ نہیں کرسکی۔
ان کا کہنا تھا ’میں جو کچھ تھا اور جو کچھ ہوں پاکستان کی فوج کی وجہ سے ہوں۔ میں کبھی سوچ نہیں سکتا کہ افواج پاکستان کے ساتھ اس قسم کی اپیل کرنے والے اور سوچ رکھنے والے گروہ کے ساتھ رہوں۔ میں نے اسی دن اپنا فیصلہ کرلیا۔
سابق فوجی جنرل کا کہنا تھا کہ ان کی پرانی فیملی فوج ان سے ناراض تھی مگر وہ لاپتہ افراد کے مسئلے کے حل کے لیے فوج کے پاس جائیں گے۔
عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں وہ صلاح و مشورہ کے بعد ہی فیصلہ کریں گے کہ کیا کوئی آزاد سیاسی گروپ تشکیل دیں یا پھر کسی سیاسی جماعت میں شامل ہوں۔
