پاکستان کی حزب اختلاف کی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات حافظ حسین احمد نے کہا ہے کہ ان کی جماعت کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی رائے اپنی جگہ مگر نواز شریف کے موجودہ بیانیے کا ساتھ دینے کا فیصلہ پارٹی کا نہیں۔
کوئٹہ میں اردو نیوز کو دیے گئے خصوصی انٹرویو کے دوران ان کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی تشکیل کے وقت کیے گئے معاہدے سے ہٹ کر مؤقف اپنایا ہے۔ ’ن لیگ کے لندن بیانیے کا پاکستان میں کوئی والی وارث نہیں۔‘
سابق رکن قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم کے معاہدے پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔ اگر ن لیگ کے اپنے معاملات ہیں تو اس پر انہیں خود سامنے آنا چاہیے۔ اگر ن لیگ اور میاں نواز شریف مخلصانہ تحریک چلانا چاہتے ہیں تو ان کے بھائی (شہباز شریف) خود میدان میں آئیں۔ دونوں کے بیانیے میں تضاد نہیں ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف نے ضمانت واپس لے کر خود رضا کارانہ گرفتاری دی تاکہ وہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی قیادت سے بچ جائیں۔
مزید پڑھیں
-
’عسکری قیادت پر تنقید، ن لیگ کی مقبولیت کم ہو گی‘Node ID: 515066
-
مصالحت یا لڑائی؟ ن لیگ کی الگ الگ ٹیمیں؟Node ID: 515236
-
’نواز شریف فوج کو آرمی چیف کے خلاف بغاوت پر اُکسا رہے ہیں‘Node ID: 515921
حافظ حسین احمد کے مطابق پی ڈی ایم کے قیام کے وقت ایک اعلامیے پر دستخط کیے گئے تھے جس میں جمہوریت کی بحالی اور آئین پر عمل درآمد اور نئے انتخابات جیسے نکات شامل تھے، مگر اب اس اعلامیے اور بیانیے سے ہٹ کر ایک اور بیانیہ سامنے آگیا ہے۔ یہ وہ بیانیہ ہے جو لندن سے نشر ہوتا ہے جس کا پاکستان میں اور مسلم لیگ ن میں کوئی وارث نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ن لیگ کی صورت حال بالکل ایم کیو ایم جیسی ہے۔ اگر میاں نواز شریف ن لیگ کے قائد ہیں اور ان ہی کا بیانیہ چلتا ہے تو ان کی پاکستان میں موجود قیادت اس کی پیروی کیوں نہیں کررہی؟
کراچی جلسے میں میاں نواز شریف نے تقریر نہیں کی مگر ان کے بیانیے کو کسی نے کیوں بیان نہیں کیا؟ ’میں چیلنج کرتا ہوں کہ جو تقریر نواز شریف نے کوئٹہ جلسے میں کی ہے وہ تقریر کوئی بھی فرد کر لے۔‘
رہنما جے یو آئی نے کہا کہ ’جس بیانیے کا بوجھ مسلم لیگ ن نہیں اٹھا سکتی، جس بیانیے کا بوجھ مریم نواز، شاہد خاقان، احسن اقبال، سعد رفیق، خواجہ آصف، عبدالقادر بلوچ اور ثناء اللہ زہری نہیں اٹھا سکتے اس کا بوجھ ہم کیوں اٹھائیں۔ اسی لیے ہم نے اپنے پارٹی اجلاسوں میں اس پر کھل کر بات کی ہے۔ جے یو آئی کی مجلس شوریٰ، مجلس عاملہ میں یہی باتیں کیں۔ مولانا فضل الرحمان اور صوبائی قیادت سے بھی یہی باتیں ڈیڑھ سال سے کہہ رہا ہوں کہ ہمارے دوست قابل اعتبار نہیں۔ یہ پہلی بار نہیں، ہر بار ان کا یہی طریقہ واردات ہوتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان کی رائے اپنی جگہ مگر نواز شریف کے موجودہ بیانے کا ساتھ دینے کا فیصلہ پارٹی کا نہیں۔ پارٹی رہنماؤں کی اکثریت کی سوچ بھی اس بیانیے کی مخالفت میں ہے۔
’جو مولانا کی (رائے) ہے پارٹی نے تو یہ فیصلہ نہیں کیا تھا کہ آپ اس بیانیے کا ساتھ دیں۔ میں غلط صحیح کی بات نہیں کہہ رہا ہوں۔ میں کہتا ہوں کہ ہوسکتا ہے مولانا کی بات صحیح ہو لیکن پارٹی کا فیصلہ تو یہ نہیں۔ اس کے باوجود میں نے جو بات کی ہے میں نے واضح طور پر کہا ہے کہ یہ میری ذاتی رائے ہے اور اب بھی میں کہہ رہا ہوں تو میں اپنی اس رائے کو پارٹی کی رائے قرار نہیں دے رہا، باوجود اس کے کہ پارٹی کے اکثر لوگوں کی سوچ یہی ہے جو میں عرض کررہا ہوں‘۔
ان کے بقول باقی پارٹی رہنما بھی اس اختلاف کا اظہار بند کمروں اور پیٹھ پیچھے کرتے ہیں۔ ہر پارٹی میں ایسا ہوتا ہے لیکن یہ پارٹی کے ساتھ مخلصانہ انداز نہیں ہے۔
جے یو آئی کے سینیئر رہنما کا کہنا تھا کہ میاں نواز شریف نے عمران خان کو اقتدار میں لانے، انتخابات میں دھاندلی، مہنگائی سمیت تمام مصیبتوں کا ذمہ دار جنرل باجوہ کو قرار دیا تو پھر انہیں ووٹ کیوں دیا؟
’میرا سوال یہ ہے کہ جب ساری ذمہ داری ان کی ہے تو وہ کون سی چیز آپ نے حاصل کی اور ووٹ دیا۔ یعنی ایک شخص کے توسیع ملازمت کے لیے آپ ووٹ دے رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ تمام خرابیوں کے ذمہ دار یہ ہیں اوراس خرابی کے ذمہ دار کو آپ مزید وقت دے رہے ہیں تین سال کے لیے۔‘

حافظ حسین احمد کا کہنا تھا کہ ’مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کئی مواقع پر پیچھے ہٹی ہیں اس لیے اپنے پارٹی اجلاسوں میں واضح طور کہا کہ ہمارے دوست قابل اعتبار نہیں۔ 2008 کے انتخابات سے بائیکاٹ، ایف اے ٹی ایف، پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے قانون سازی اور جے یو آئی کے آزادی مارچ میں میاں نواز شریف نے دھوکہ دیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جمعیت علمائے اسلام نے ملین مارچ کے بعد اکتوبر2019ء میں اسلام آباد کی جانب آزادی مارچ بھی آصف زرداری اور میاں نواز شریف کی آمادگی کے بعد ہی شروع کیا تھا۔
’نواز شریف نے جیل سے رہا ہونے کے بعد خود آکر ہمیں کہا کہ تحریک چلاتے ہیں۔ ہمیں کہا گیا کہ آپ مہربانی کریں اس (تحریک) کے لیے آگے بڑھیں۔ ان کے کہنے پر ہم نے پروگرام بنایا اور آزادی مارچ کا اعلان کیا۔‘
حافظ حسین احمد کے بقول ’انہوں (ن لیگ) نے کہا کہ ہم نومبر میں نکلنے کی پوزیشن میں ہوں گے اس لیے ہم نے اسلام آباد کی طرف آزادی مارچ کی تاریخ 31 اکتوبر تک بڑھا دی تاکہ اگلا دن نومبر کا ہو۔ ہم یکم نومبر کو اسلام آباد پہنچے اور انتظار کرتے رہے لیکن جو وعدہ کیا تھا وہ وفا نہیں ہوسکا۔ وہ لوگ سٹیج تک تو آگئے لیکن انہوں نے آگے معذرت کی۔ شہباز شریف نے وعدہ خلافی کرتے ہوئے اس میں حصہ نہیں لیا۔ جے یو آئی نے اپنے بل بوتے پر 13 دن تک اپنے احتجاج اور آزادی مارچ کو برقرار رکھا۔‘
