بیورو آف امیگریشن پاکستان کے مطابق سعودی عرب میں ملازمت کے نئے نظام سے کم و بیش 80 فیصد پاکستانی ورکرز مستفید ہوں گے۔
بیورو آف امیگریشن پاکستان کے حکام نے اردو نیوز کو بتایا کہ 20 فیصد وہ گھریلو ملازمین ہیں جن پر نئے نظام کا اطلاق نہیں ہوتا تاہم ویزہ کیٹگری سے ہٹ کر کام کرنے والوں کے لیے مشکلات کھڑی ہو سکتی ہیں۔
بیورو آف امیگریشن پاکستان کے مطابق 1971 سے اب تک 55 لاکھ سے زائد پاکستانی ملازمت کے سلسلے میں سعودی عرب گئے جن میں سے 25 لاکھ زائد اب بھی سعودی عرب میں موجود ہیں۔
سنہ 2019 میں ورک ویزہ پر بیرون ملک جانے والے چھ لاکھ 25 ہزار افراد میں سے تین لاکھ 32 ہزار 713 افراد سعودی عرب گئے جو مجموعی تعداد کا 53.2 فیصد بنتا ہے۔
مزید پڑھیں
-
سعودی عرب میں ملازمت کا نیا نظام کیا ہے؟Node ID: 515591
-
’بیرون ملک پاکستانی، 23.18 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ پورا کیا‘Node ID: 515686
-
ملازمت کے نئے نظام میں غیر ملکی کارکنان کے لیے شرائطNode ID: 515836
پاکستانیوں کا ایک بڑا حصہ سعودی کمپنیوں میں ملازمت کرتا ہے۔ اعداد و شمار سے یہ واضح تو نہیں ہو سکتا کہ ان میں سے کتنے ملازمین کمپنیوں میں کتنے گھروں میں کام کرتے ہیں تاہم بیورو آف امیگریشن کے مطابق سعودی عرب میں پاکستانی گھریلو ملازمین کی قابل ذکر تعداد موجود ہے۔ اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز کے اندازے کے مطابق ڈرائیور، خانساماں اور مالی کے ویزے پر جانے والے پاکستانیوں میں سے 20 سے 25 فیصد گھروں میں کام کرتے ہیں۔
اگر صرف سال 2019 اور 2020 کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو ایک سال 9 ماہ میں دو لاکھ 42 ہزار 800 سے زائد پاکستانی سعودی عرب گئے۔
اس طرح مالی، باغبانی اور زرعی ورکر کے طور جانے والوں کی تعداد سات ہزار کے قریب ہے۔ نو ہزار سے زائد افراد خانسامے یا آیا کے ویزوں پر سعودی عرب گئے۔

سال 2019 میں ایک ہزار 218 پاکستانی خواتین ورکرز بھی سعودی عرب میں ملازمت کے لیے گئیں جن میں سے اکثریت ان نرسز کی ہے جو گھروں میں بزرگ افراد اور بچوں کی دیکھ بھال پر معمور ہوتی ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ سعودی حکومت کی جانب سے ملازمت کے نئے نظام کے حوالے سے ابھی تک اطلاعات میڈیا کے ذریعے ہی آ رہی ہیں جو کہ حوصلہ افزا ہیں۔
