Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
بدھ ، 10 ستمبر ، 2025 | Wednesday , September   10, 2025
بدھ ، 10 ستمبر ، 2025 | Wednesday , September   10, 2025

کروز پر ’بحری سیر‘، منصوبے سے وبا کا خطرہ

دنیا کی کئی بندرگاہوں میں کروز انڈسٹری کا کووڈ 19 کے پھیلاؤ میں کردار ہے (فوٹو: بلوم برگ)
دنیا بھر میں ہوائی سفر کی طرح جہاز کا سفر بھی متاثر ہوا ہے اور سنگاپور میں اس کی وجہ سے ہونے والے نقصان کا ازالہ کرنے کے لیے کروز سروس شروع کی جائے گی جس کی منزل محدود ہوگی۔
اس کا نام 'کہیں نہ جانے والی کروز' یا 'کروز ٹو نو ویئر' ہوگا، تاہم ناقدین نے پیر کو تنبیہہ کی ہے کہ اس اقدام سے کورونا وائرس کے کیسز کے بڑھنے کا خطرہ ہو سکتا ہے۔
واضح رہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے لگائی جانے والی سفری پابندیوں اور لوگوں سے بھری کشتیوں میں وائرس کے کیسز آنے کے باعث عالمی کروز انڈسٹری کا کاروبار تھم گیا تھا۔
ایشیا کی اہم بندرگاہ ہونے کی وجہ سے سنگاپور کے سیاحتی بورڈ نے کروز لائنز کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا ہے تاکہ ایسی کشتیاں چلائی جائیں جو کہ سنگاپور سے نکلیں اور وہاں واپس آئیں۔
سنگاپور کے سیاحتی بورڈ کی ڈائریکٹر اینی چینگ نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ حکام مناسب اقدامات کریں گے تاکہ کشتیاں حفاظت کے ساتھ دوبارہ چل سکیں۔
ماحولیات پر کام کرنے والے عالمی نیٹ ورک فرینڈر آف دی ارتھ کی ایک پروگرام ڈائریکٹر مارسی کیور کا کہنا تھا کہ کشتیاں دوبارہ چلانے سے کووڈ کے کیسز میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ دنیا کی کئی بندرگاہوں میں کروز انڈسٹری کا کووڈ 19 کے پھیلاؤ میں کردار ہے۔

سنگاپور ایئرلائنز نے اسی طرح کی پروازیں چلانے کا منصوبہ ترک کیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے یہ بھی کہا کہ کشتیاں دوبارہ چلانے سے ماحول پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
گذشتہ ہفتے سنگاپور ایئر لائنز نے اسی طرح کی پروازیں چلانے کے منصوبے کو ترک کیا تھا۔
'فلائٹس ٹو نو ویئر' یا 'کہیں نہ جانے والی پروازیں' چلانے کا مقصد ملک کی معیشت کو بحال کرنا تھا، تاہم اس کے ماحولیات پر اثرات کی وجہ سے اٹھنے والے شور کو مدِنظر رکھتے ہوئے سنگاپور نے یہ ارادہ ترک کر دیا۔
دنیا بھر میں کئی کروز لائنز، جن میں برطانیہ کی پی اینڈ اور کروزز اور ناروے کی ہرٹیگرٹن شامل ہے، نے بھی پابندیوں کے باعث اپنے سفر منسوخ کردیے ہیں۔
سنگاپور میں ان جگہوں پر وائرس کی زیادہ تصدیق ہوئی تھی جہاں کم تنخواہوں والے مہاجرین رہتے تھے، تاہم اس پر کافی حد تک قابو پر لیا گیا ہے۔

 

باخبر رہیں، اردو نیوز کو ٹوئٹر پر فالو کریں

شیئر: