پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ تمام فریقین کو افغان امن عمل میں جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے اور افغانستان سے بین الاقوامی افواج کا فوری انخلا غیر دانشمدانہ ہوگا۔
عمران خان نے یہ بات امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں لکھے گئے اپنے آرٹیکل میں کہی ہے۔
پاکستان کے وزیراعظم نے لکھا کہ ’ہمیں خطے میں ایسے عناصر کا بھی دھیان رکھنا چاہیے جنہوں نے افغان امن عمل میں کوئی حصہ نہیں ڈالا ہے اور وہ اپنے سیاسی مفادات کے لیے افغانستان میں بد امنی دیکھنا چاہتے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
امریکہ و طالبان کے امن معاہدے کے نکاتNode ID: 462171
-
افغانستان: جنگ بندی برقرار، سینکڑوں طالبان قیدی رہاNode ID: 496181
-
افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا آغازNode ID: 504571
عمران خان کے مطابق ’افغنستان میں بد امنی کی وجہ سے افغانوں کے علاوہ سب سے بھاری قیمت پاکستان نے چکائی ہے۔ اس سے ہم نے یہ سبق سیکھا ہے کہ پاکستان جغرافیائی لحاظ سے افغانستان کے ساتھ جڑا ہے اور جب وہاں امن نہیں ہوتا پاکستان میں بھی امن نہیں آئے گا۔‘
’ہم نے یہ بھی سیکھا کہ افغانستان میں باہر سے طاقت کے زور پر امن قائم نہیں کیا جا سکتا اور کا حل بین الافغان مذاکرات سے ہی نکل سکتا ہے۔‘
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ بین الافغان مذاکرات مشکل ہو سکتے ہیں جس کے لیے تمام فریقین کی طرف سے صبر اور مصلحت کی ضرورت ہوگی۔ اس میں پیش رفت سست اور تکلیف دہ ہو سکتی ہے اور ہو سکتا ہے بعض مواقع پر دیڈ لاک بھی ہو، تاہم مذاکرات کی میز پر ہونے والا یہ ڈیڈ لاک میدان جنگ میں بہنے والے خون سے بہتر ہے۔‘
انہوں نے لکھا کہ ’پاکستان چاہتا ہے کہ امن مذاکرات مجبوری میں نہیں ہونے چاہیں اور تمام فریقین سے اپیل ہے کہ تشدد میں کمی کریں۔ جس طرح افغان حکومت نے طالبان کی سیاسی حیثیت کو تسلیم کیا ہے اسی طرح طالبان بھی افغانستان میں ہونے والی پیش رفت کو قبول کریں۔‘
