ہم جیسے لوگ جو ساڑھے چار مہینے سے گھروں میں محصور ایک عجیب ہی کشمکش سے گزر رہے ہیں، اس انتظار میں کہ جب کورونا وائرس کا خطرہ پوری طرح ٹل جائے گا تبھی باہر نکلیں گے۔
اس قید تنہائی میں اب مزا آنے لگا ہے۔ زندگی میں پہلی مرتبہ فراق کےاس شعر کا مطلب سمجھ میں آیا ہے کہ کچھ قفس کی تیلیوں سے چھن رہا ہے نور سا، کچھ فضا کچھ حسرت پرواز کی باتیں کرو۔ یہ شعر لاک ڈاؤن کی ٹیگ لائن ہونا چاہیے تھا۔
اب نہ کسی کا گھر میں آنا اچھا لگتا ہے اور نہ کسی کے گھر جانا۔ ہاتھ دھونے کی اچھی عادت نے اب ایک جنون کی شکل اختیار کر لی ہے، اور زندگی کا بس ایک ہی مقصد باقی رہ گیا ہے، موت تو آنی ہی ہے، اب نہیں تو کچھ سال بعد، لیکن جہاں تک ممکن ہوگا موت کو کورونا وائرس سے نہیں آنے دیں گے۔
مزید پڑھیں
-
بھارت کا اپنا بسکٹNode ID: 481246
-
ہمیں تو پیدل ہی لے چلوNode ID: 492271
-
وزیر اعظم بننے کا نسخہNode ID: 493836
اس لیے صبح سویرے گھر سے ٹہلنے کے لیے نکلتے ہیں تو جیب میں دو ٹوتھ پک ڈال لیتے ہیں، اس لیے نہیں کہ کسی کے گھر ناشتے پر جانا ہے اور صبح صبح کسی کو ٹوتھ پک کے لیے زحمت دینا کہاں اچھا لگتا ہے، بلکہ اس لیے کہ فلیٹ ملٹی سٹوری کمپلکس میں ہے اور سنا ہے کہ لفٹ کے بٹن دبانا خطرے سے خالی نہیں۔
اس لیے ایک ٹوتھ پک جانے کے لیے اور ایک واپسی کے لیے۔
نیچے ٹہلتے وقت ایک عجیب ہی مشکل کا سامنا ہونے لگا ہے۔ ہر شخص ہماری ہی حکمت عملی پر چل رہا ہے۔ سب کے چہرے ماسک سے ڈھکے ہوتے ہیں، کس سے سلام دعا ہوئی کچھ پتا نہیں چلتا۔
کئی بار یہ آئڈیا آیا کہ فیس ماسک کے اس دور میں یا تو ٹی شرٹ پر پہننے والے کا نام چھپا ہوا ہو یا آج کل کے ماحول میں جب لوگ اپنا نام یوں بتانے سے ذرا کتراتے ہیں، ٹی شرٹ پر ’بار کوڈ‘ ہونا چاہیے، فون سے سکین کیا اور معلوم ہو گیا کہ ماسک کے پیچھے کون ہے، کس سے بات ہو رہی ہے۔
کورونا وائرس نے زندگی تقریباً پوری طرح بدل دی ہے۔ بالکونی میں کھڑے ہو کر دیکھیں تو تقریباً ہر فلیٹ میں بڑی بڑی مونچھ والے، اور وہ لوگ بھی جو مونچھ نہیں رکھتے لیکن جن کی چال ڈھال سے لگتا ہے کہ مونچھ ہے تو سہی بس نظر نہیں آ رہی، صفائی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ پہلی مرتبہ لوگوں کو احساس ہوا ہے کہ گھر کی صفائی کا کام اتنا آسان بھی نہیں جتنا وہ ہمیشہ سے سمجھتے تھے۔

پہلی مرتبہ لوگوں کو یہ بھی سمجھ میں آیا ہے کہ سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں۔ اس لیے بہت سے لوگ وہ سارے کام نمٹانے میں لگے ہوئے ہیں جو انہوں نے فرصت کے لیے چھوڑ رکھے تھے، کوئی وکیل کے پاس جا کر وصیت لکھوا رہا ہے تو کوئی زمین جائیداد کے بٹوارے کے جھگڑے سلجھانے میں لگا ہوا ہے، ’بھائی ہمارے بعد بچے کہاں ان جھگڑوں میں پڑیں گے، اگر کچھ اونچ نیچ ہوگئی تو ان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔‘
لیکن عام طور پر بالکل ضروری نہ ہو تو لوگ اپنے گھروں سے نکلنے سے بچ ر ہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم جیسے لوگ بھی، جو ایک سرے سے دوسرے تک اخبار پڑھتے ہیں، اب کنفیوژن کا شکار ہیں۔ خطرہ ٹل گیا ہے، کم ہوا ہے یا بڑھ رہا ہے؟
دلی میں کیسز کم ہو رہے ہیں لیکن ملک میں اور باقی دنیا میں مجموعی کیسز کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ہسپتالوں میں بیڈ خالی پڑے ہیں، اس لیے ڈرنے کی کوئی بات نہیں، لیکن ساتھ ہی ویک اینڈ پر لاک ڈاؤن بھی ہے۔
اس سب کا مجموعی اثر یہ ہو رہا ہے کہ لوگ غیر ضروری خرچ سے بچ رہے ہیں، جس کے پاس جو ہے سنبھال کر رکھ رہا ہے کہ معلوم نہیں کب ضرورت پڑ جائے۔
لاک ڈاؤن کی بہت سی پابندیاں ابھی تک باقی ہیں۔ ہوٹل، ایئرلائنز، ریستوران، ٹرین سروس یا تو بالکل بند ہیں یا سخت شرائط کے تحت کام کر رہے ہیں۔ بڑی بڑی کمپنیاں بڑی تعداد میں ملازمین کی چھٹنی کر رہی ہیں یا انہیں بغیر تنخواہ چھٹی پر بھیج رہی ہیں۔
چھوٹے بڑے کاروبار، سب مشکل میں ہیں لیکن شیئر بازار کو دیکھ کر لگتا ہے کہ جیسے ملک تیز رفتار اقتصادی ترقی کے سنہرے دور سے گزر رہا ہو۔ سینسیکس کچھ اتنی تیزی سے اوپر جا رہا ہے جیسے یہ تمام کمپنیاں کسی دوسرے ملک میں کاروبار کر رہی ہوں۔
