متحدہ قومی موومنٹ کے مقتول رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا ہے۔
اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے تینوں گرفتار ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی ہے اور عمران فاروق کے ورثا کو 10،10 لاکھ روپے معاوضہ ادا کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔
انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج شاہ رخ ارجمند نے ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کا مختصر فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
مزید پڑھیں
-
الطاف حسین کی بذریعہ اشتہار طلبی پر پیشرفتNode ID: 186171
-
ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس،ملزمان پر فرد جرمNode ID: 241961
-
ڈاکٹرعمران فارو ق کے قاتل پکڑے جائیں گے؟Node ID: 272701
ملزمان خالد شمیم، محسن علی اور معظم علی کی ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں حاضری لگوائی گئی اور جج نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ آپ تینوں کے خلاف استغاثہ کیس ثابت کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے عمران فاروق قتل کیس میں بانی ایم کیو ایم الطاف حسین اور افتخار حسین کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے ہیں۔
عدالت نے کیس میں اشتہاری ملزمان محمد انور اور کاشف کامران کے بھی دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں۔
ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 کو برطانیہ میں قتل کر دیا گیا تھا جس کے بعد وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے 5 دسمبر 2015 کو پاکستان میں اس قتل کا مقدمہ درج کیا تھا جس میں تین ملزمان خالد شمیم، محسن علی اور معظم علی کو گرفتار کیا گیا۔
گرفتار ملزمان پر قتل سمیت قتل کی سازش تیار کرنے، قتل میں معاونت اور سہولت کاری کے الزامات عائد کیے گئے جب کہ دو گرفتار ملزمان خالد شمیم اور محسن علی نے 7 جنوری 2016 کو مجسٹریٹ کے روبرو اعترافی بیانات ریکارڈ کرائے تاہم دوران ٹرائل اپنے بیانات سے مُکر گئے۔
تینوں ملزمان پر 2 مئی 2018 کو فرد جرم عائد کی گئی جب کہ 4 ملزمان بانی متحدہ، محمد انور، افتخار حسین اور کاشف کامران کو اشتہاری قرار دیا گیا۔
دوران سماعت استغاثہ کے 29 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے گئے، کیس کے برطانوی چیف انویسٹی گیٹر نے عدالت میں بیان ریکارڈ کرایا جب کہ مقتول کی اہلیہ سمیت دیگر برطانوی گواہوں نے ویڈیو لنک پر بیانات ریکارڈ کرائے جن میں عمران فاروق کے پڑوسی عینی شاہدین، پولیس حکام، فرانزک ماہرین اور پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر شامل ہیں۔
پاکستانی حکومت کی جانب سے برطانیہ کو دوران ٹرائل جرم ثابت ہونے کے باوجود ملزمان کو سزائے موت نہ دینے کی یقین دہانی کرائی گئی جس کے بعد کیس میں پیش رفت ہوئی اور برطانیہ نے باہمی قانونی معاونت کے تحت شواہد فراہم کیے
