پاکستان کے ضلع گجرات کے گاؤں بدو سے تعلق رکھنے والے چوہدری مشتاق احمد اپنی جوانی کے دنوں میں ہی بسلسلہ روزگار برطانیہ چلے گئے تھے۔ انہوں نے مانچسٹر میں رہائش اختیار کی اور کچھ عرصے بعد اہلیہ کو بھی وہیں لے گئے۔ معمول کے مطابق وہ ہر دوسرے سال پاکستان آتے اور اپنے عزیزو اقارب کے ساتھ وقت گزارتے۔
کچھ سال قبل پاکستان آئے تو ان کا 10 سالہ اکلوتا بیٹا ٹریفک حادثے میں انتقال کرگیا جس کی تدفین آبائی گاؤں میں ہی کی گئی۔ گذشتہ سال ان کی اہلیہ کا انتقال مانچسٹر میں ہوا تو ان کی میت کو بھی تدفین کے لیے پاکستان لایا گیا۔
جس کے بعد 65 سالہ چوہدری مشتاق احمد کو اپنا آخری وقت قریب محسوس ہونے لگا اور انھوں نے اپنی بیٹیوں کو وصیت کی کہ اگر ان کی موت مانچسٹر میں ہو تو ان کی میت پاکستان منتقل کر کے وہاں تدفین کی جائے۔
مزید پڑھیں
-
پنجاب کے ضلع گجرات میں کورونا وائرس کیسے پھیلا؟Node ID: 467776
-
گجرات: کئی خاندان کورونا سے متاثرNode ID: 469281
-
’ قطری کمپنیاں پاکستانیوں کی برطرفی کا سلسلہ روکیں‘Node ID: 472631
کورونا کے باعث جب پوری دنیا ایک دوسرے سے تقریبا کٹ کر رہ گئی تھی تو چوہدری مشتاق احمد کو بخار ہوا۔ انہیں شک گزرا کہ شاید وہ کورونا کا شکار ہو گئے ہیں لیکن ٹیسٹ کے بعد معلوم ہوا کہ انھیں کورونا نہیں بلکہ نمونیا ہے۔ علاج معالجہ ہوا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے اور بیماری کے 10 دن بعد انتقال کر گئے۔
ان کے بھتیجے چوہدری رضوان احمد نے اردو نیوز کو بتایا کہ 'ہم نے ان کی وصیت کے مطابق کوشش کی کہ میت کو پاکستان لیجایا جائے۔ قونصلیٹ اور پی آئی اے کے دفاتر کے چکر بھی کاٹے۔ قونصلیٹ بند اور پی آئی کا کوئی قریب ترین شیڈول نظر نہیں آیا۔ ہمیں کہا گیا کہ 21 دن کے لیے میت محفوظ کر دیں اس کے بعد میت منتقل کی جا سکے گی۔'
ان کے مطابق 'یہ سن کر ہمیں مجبوراً امانتاً تدفین کرنا پڑی۔ ہمیں افسوس ہے کہ ہم اپنے چچا کی وصیت پر عمل نہیں کر سکے۔ جس کا دکھ ہمیں ہمیشہ رہے گا۔ ہم اس کے لیے کسی کو قصوروار بھی نہیں ٹھہرا سکتے کیونکہ معمول کے حالات میں ایسا بالکل نہ ہوتا۔'

ان ہی کے علاقے کے ایک اور بزرگ 70 سالہ چوہدری لیاقت علی لندن میں رہتے تھے۔ ان کا تعلق گاؤں ڈمیان سے تھا وہ گذشتہ ہفتے ہارٹ اٹیک سے وفات پاگئے تھے۔ دو شادیاں ہونے کی وجہ سے ان کی ایک فیملی، بیٹیاں، بہنیں اور خاندان کے دیگر افراد پاکستان میں ہی مقیم تھے۔ برطانیہ میں مقیم ان کے بھائی اور بچوں نے فیصلہ کیا کہ تدفین پاکستان میں کی جائے گی۔
ان کے بھائی چوہدری عنصر علی نے اردو نیوز کو بتایا کہ 'قونصلیٹ تقریبا بند ہے۔ پی آئی اے کی خصوصی پروازیں پہلے سے بک تھیں تو ہم نے ان کی تدفین یہاں پر ہی کر دی۔'
اسی طرح پیرس میں مقیم ضلع سرگودھا سے تعلق رکھنے والے برہان سعید کی والدہ بھی تین ہفتے قبل ہارٹ اٹیک سے فوت ہو گئی تھیں۔ ان دنوں فلائٹ آپریشن مکمل طور پر بند تھا جس وجہ سے ان کی میت پاکستان منتقل نہ کی جا سکی۔
انھوں نے اس حوالے سے حکومت پاکستان پر شدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'عمران خان ہر مشکل وقت میں اوورسیز پاکستانیوں کو پکارتے ہیں لیکن جب ہم مشکل میں ہوتے ہیں تو ہمیں کوئی پوچھتا بھی نہیں۔'
کورونا کے علاوہ کسی بیماری یا قدرتی موت آ جانے کے باعث دنیا کے کئی ممالک میں بہت سے پاکستانیوں کی میتیں پاکستان منتقل نہیں کی جاسکیں۔ بہت سے پاکستانیوں نے مایوس ہو کر اپنے پیاروں کو وہیں پر دفن کر دیا ہے۔

برطانیہ، سپین، فرانس، امریکہ، سعودی عرب اور کئی دیگر ممالک میں پاکستانیوں کی بڑی تعداد مقیم ہے اس لیے وہاں سے پاکستانی شہریوں کی لاشوں کی منتقلی معمول میں ہوتی ہے لیکن فلائٹ آپریشن کی معطلی کے باعث ایسا ممکن نہیں ہو پا رہا۔
اردو نیوز نے برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر نفیس ذکریا سے رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ 'جن لوگوں کے ساتھ کوئی بھی مسئلہ ہے وہ ہائی کمیشن سے رابطہ کریں۔ مشکل وقت ہے لیکن ہم کوشش کریں گے کہ اپنے ہم وطنوں کے دکھوں کا مداوا کر سکیں۔'
انہوں نے مزید کہا کہ 'مسئلہ یہ ہے کہ متاثرین تو دکھ میں ہوتے ہیں کوئی دوسرا بھی ان کو درست راستہ نہیں بتاتا۔ اگر ہمارے نوٹس میں معاملہ لایا جائے تو ہم اس کا کوئی نہ کوئی حل ضرور نکال لیتے ہیں۔'
ان کے بقول 'کورونا سے ہلاک ہونے والوں کی میت کی پاکستان منتقلی نہ تو کی جا رہی اور نہ ہی کسی نے اس حوالے سے کوئی رابطہ کیا ہے۔'
