آسام میں ’دو سے زیادہ بچے ہوئے تو سرکاری نوکری نہیں‘
آسام میں ’دو سے زیادہ بچے ہوئے تو سرکاری نوکری نہیں‘
بدھ 23 اکتوبر 2019 11:40
شبانو علی -اردو نیوز، ممبئی
حالیہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مسلمانوں کی شرح پیدائش میں تیزی سے کمی آئی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے کہا ہے کہ یکم جنوری 2021 کے بعد دو سے زیادہ بچوں والے افراد کو سرکاری نوکری نہیں دی جائے گی۔
منگل کو ریاست کے وزیراعلی سربنندا سونووال نے کابینہ کی میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا ہے۔ ان کے اس فیصلے کو بی جے پی کے سیاسی عزائم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے سوشل میڈیا صارفین کی رائے منقسم ہے۔ کچھ لوگ اسے انڈیا کی آبادی کو روکنے کی سمت میں اہم قدم کہہ رہے ہیں جبکہ بعض افراد فیصلے کو مضحکہ خیز قرار دے کر اسے فرقہ وارانہ ذہنیت کی پیداوار کہہ رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ایسے صارفین بھی ہیں جن کا کہنا ہے کہ وزیراعلی سونووال خود اپنے والدین کی آٹھویں اولاد ہیں اور وہ اس قسم کے فیصلے کر رہے ہیں۔
مبصرین کا خیال ہے کہ بی جے پی آسام میں ہندو مسلم آبادی کے تناسب کو برقرار رکھنا چاہتی ہے اور اس کے لیے وہ پہلے ہی زور و شور سے نیشنل رجسٹر آف سیٹیزنز (این آر سی) کو نافذ کرنے پر کاربند ہے جس کے تحت تقریباً 20 لاکھ افراد کی شہریت مخدوش ہو گئی ہے۔
شہریوں کی رجسٹریشن کے قانون کے بعد اس فیصلے کو بھی مسلمانوں کے خلاف سمجھا جا رہا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
خیال رہے کہ گذشتہ روز امریکی کانگریس کی خارجہ امور کی ایک کمیٹی کے اجلاس میں کانگریس رکن الہان عمر نے کشمیر کے علاوہ آسام کی صورت حال پر بھی تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ مودی حکومت نے آسام میں شہریت کی فہرست میں نہيں آنے والے افراد کو ملک میں نہیں رہنے دینے کا عزم کر رکھا ہے۔ 'وہ مسلمانوں کو کیمپوں میں رکھنا چاہتی ہے۔'
آسام میں سنہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں کی تعداد تقریبا پونے دو لاکھ ہے جو کہ ریاست کی مجموعی آبادی کا تقریباً 35 فیصد ہے اور ریاست کے بعض اسمبلی حلقوں میں وہ اکثریت میں ہیں۔
صرف انڈیا ہی نہیں دنیا کے اکثر ممالک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو اہم مسئلہ تصور کیا جاتا ہے اور انڈیا میں ایک زمانے سے حکومتی سطح پر اس کے متعلق بیداری پیدا کرنے کی مہم اور تشہیر جاری ہے جس میں 'ہم دو ہمارے دو' جیسے نعرے ایک زمانے سے مقبول رہے ہیں۔
انڈیا میں ایمرجنسی کے زمانے میں کانگریس پر مسلمانوں کی زبردستی نس بندی کرانے کا الزام لگا تھا اور اس کے بعد کانگریس کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔
دوسری جانب بی جے پی اور سخت گیر ہندو تنظیموں کا طویل عرصے سے یہ کہنا رہا ہے کہ مسلمان زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں لیکن حالیہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مسلمانوں کی شرح پیدائش میں تیزی سے کمی آئی ہے۔
ماضی میں قوم پرست ہندو رہنما وقتا فوقتا ایسے بیانات دیتے آئے ہیں کہ ایک دن ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی ہندوؤں سے زیادہ ہو جائے گی۔
بہرحال آسام کابینہ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ دو بچوں کی پالیسی پر سختی کے ساتھ عمل کیا جائے گا۔
آپ والا نامی ایک صارف نے لکھا: 'بی جے پی لیڈر اور آسام کے وزیراعلی سربنند سونووال جو خود اپنے والدین کی اٹھویں اولاد ہیں انھوں نے دو سے زیادہ بچوں والے افراد کو سرکاری ملازمت دیے جانے پر روک لگا دی ہے۔ یہ قانون ان کے اور مودی جیسے سیاست دانوں پر نافذ کیوں نہیں ہوتا جو اپنے والد کی پانچویں اولاد ہیں۔'
ایک صارف شو دانی سنگھ نے لکھا کہ یہ فیصلہ اچھا ہے۔