ماضی قریب میں پاکستان کی ایک احتساب عدالت نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی لندن میں جائیداد بحق سرکار ضبط کرنے کا حکم دیا۔ اسی عدالتی حکم میں سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو گرفتار کرکے وطن واپس لانے کے احکامات بھی دیے۔
اسی فیصلے میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے بیٹوں کو اشتہاری قرار دیا گیا کیونکہ ان کے خلاف کسی قسم کی تحقیقات نہیں کی جا سکیں کہ وہ برطانوی شہری ہیں اور پاکستانی قانون کا اطلاق ان پر نہیں ہو سکتا۔
ان معروف شخصیات کے علاوہ بھی کئی شہری پاکستان میں جرم کا ارتکاب کرتے ہیں اور بیرون ملک فرار ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح کچھ افراد دوسرے ملکوں میں جرم کرکے واپس پاکستان آ جاتے ہیں لیکن ان کے خلاف کارروائی نہیں کی جا سکتی جس میں کئی قانونی کمزوریاں رکاوٹ بنتی ہیں۔
انہی کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے گذشتہ ہفتے پاکستان کی وزارت داخلہ نے قومی اسمبلی میں دوسرے ممالک سے فوجداری معاملات پر قانونی معاونت کا بل پیش کیا ہے۔
جس کے تحت پاکستان میں فوجداری جرائم کے مرتکب وہ افراد جو پاکستان سے باہر کسی دوسرے ملک میں مقیم ہیں ان سے تحقیقات کرنے، ان کے خلاف عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کرانے، سرچ وارنٹ حاصل کرنے اور دستیاب شواہد کو ملک واپس لانے کے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔

18 صفحات پر مشتمل اس طویل بل کے اغراض و مقاصد میں کہا گیا ہے کہ فوجداری مقدمات کے سلسلے میں مختلف ممالک کے قوانین میں یکسانیت نہ ہونے اور باہمی روابط کے کمزور طریقہ کار کی وجہ سے کئی چیلجنز کا سامنا ہے۔
ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے قانونی تحفظ درکار ہے۔ فوجداری مقدمات میں باہمی قانونی تعاون موجودہ خلا کو پر کرنے میں مدد دے گا۔ اس قانون کے تحت قانونی مدد کے لیے درخواست دینے والے ممالک ایک دوسرے سے تعاون کے پابند ہوں گے۔
اس قانون کے تحت قانونی معاونت کے لیے ایک مرکزی اتھارٹی قائم کی جائے گی۔
یہ اتھارٹی سیکرٹری داخلہ یا ان کے نامزد کردہ افسران پر مشتمل ہو سکتی ہے۔ مرکزی اتھارٹی کسی دوسرے ملک کو پاکستان کی جانب سے کسی جرم میں تحقیقات یا کارروائی میں قانونی معاونت کی درخواست کرے گی، جس کا ارتکاب پاکستان یا پاکستان سے باہر کیا گیا ہو۔
اتھارٹی کسی دوسرے ملک سے گواہوں، ملزموں، مشتبہ افراد کی جگہ (لوکیشن) اور شناخت کے بارے میں پوچھ گچھ کرنے کی درخواست کر سکتی ہے۔ اسی طرح اتھارٹی شواہد اور ملزم کی تلاش کے لیے سرچ وارنٹ سمیت دیگر قانونی دستاویزات اور اگر شواہد ملیں تو متعلقہ ملک کے قانون کے تحت ضبط کرنے کی درخواست کر سکتی ہے۔
دوسرے ملک کے قانون کے مطابق جرم کی نوعیت کے مطابق نہ صرف جائیداد ضبط یا منجمد کرنے کی درخواست کی جا سکتی ہے بلکہ شواہد، دستاویزات، پراپرٹی وغیرہ بھی پاکستان منتقل کرنے کی درخواست کی جا سکتی ہے۔
اس کے علاوہ بیرون ملک سے کسی شخص کو پاکستان کے حوالے کرنے کی درخواست بھی کی جا سکتی ہے۔

قانون کے تحت باہمی معاہدہ کرنے والے ممالک ایک دوسرے سے کسی مطلوبہ شخص کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے بینک اکاؤنٹس، مالی معاملات اور بزنس ریکارڑ کے متعلق بھی معلومات کی درخواست دے سکتے ہیں۔
پاکستان میں کسی بھی فوجداری جرم کی تحقیقات یا کارروائی کے لیے باہمی قانونی معاونت کے لیے بھی ممالک درخواست دے سکتے ہیں اور یہ درخواست بھی اسی قانون کے تحت قائم مرکزی اتھارٹی ہی وصول کرے گی۔
پاکستان میں اثاثے منجمد یا ضبط کرنے یا جرمانے کی وصولی کی درخواست پر اتھارٹی عدالت سے رجوع کرے گی تاہم کوئی بھی شخص پاکستان کے رائج قانون کی بنیاد پر سوال کا جواب دینے سے انکار بھی کر سکتا ہے۔
اگر قانونی معاونت کی درخواست پاکستان کی خود مختاری، سکیورٹی، عوامی اور قومی مفاد کے خلاف ہو، کسی شخص کی نسل، جنس، مذہب، قومیت، سیاسی رائے یا زبان کے حوالے سے سزا دینے کی غرض سے ہو تو پاکستان انکار کر سکتا ہے۔
مزید پڑھیں
-
’جب بھی تبدیلی آئے اس کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘Node ID: 434371
اس قانون کے تحت قانونی معاونت کے عمل کے دوران منجمد یا ضبط کیا گیا کوئی ریکارڈ اس وقت تک ملک سے باہر نہیں بھیجا جائے گا جب تک اتھارٹی مطمئن نہ ہو۔ پاکستان کی طرف سے فراہم کیا گیا کوئی بھی مواد تحقیقات یا عدالتی کارروائی کے علاوہ استعمال نہیں کیا جائے گا۔
قانون کے تحت پاکستان میں قید کاٹنے والے افراد کے خلاف تحقیقات یا کارروائی کی درخواست بھی وصول کی جا سکتی ہے۔ تاہم پاکستان میں قید کاٹنے والے شخص کی بیرون ملک منتقلی کے لیے اتھارٹی عدالت سے ٹرانسفر آرڈر حاصل کرے گی۔ ٹرانسفر آرڈر میں تحریری طور پر متعلقہ ملک سے لیا جائے گا کہ شخص کو کسی تیسرے ملک کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔
سابق وزیر قانون اور مسلم لیگ ن کے رکن اسمبلی محمود بشیر ورک نے ’اردو نیوز‘ سے گفتگو میں کہا کہ ’باہمی قانونی معاونت کے جو معاہدے ہوں گے وہ معاہدے بھی تب ہی ہو سکیں گے جب ان ملکوں میں بھی اسی طرف کا قانون موجود ہوگا۔ جس ملک میں باہمی قانونی معاونت کا قانون موجود نہیں ہوگا اس کے ساتھ تعاون کرنا مشکل ہے۔‘
ماہر قانون بابر ستار نے ’اردو نیوز‘ سے گفتگو میں کہا ’ماضی میں تو مشرف لوگوں کو اٹھا کر امریکہ کے حوالے کرتے ہیں اور کتاب میں لکھ کر بتا دیتے تھے کہ ہاں میں نے لوگوں کو امریکہ کے حوالے کیا۔ اب اگر کوئی قانون آ رہا ہے تو یہ اچھی بات ہے کم از کم دائرہ کار تو وضع ہونا چاہیے۔‘
مزید پڑھیں
-
’گلالئی اسماعیل کی سیاسی پناہ کے لیے ہر ممکن اقدام کریں گے‘Node ID: 434501