پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے 11 جون کی رات قوم سے خطاب میں ملک کو قرضوں میں جکڑنے کی وجوہات جاننے اور سابق حکومتوں بالخصوص گذشتہ دس سال میں کی گئی مبینہ کرپشن بے نقاب کرنے کے لیے اپنی سربراہی میں ایک اعلی اختیاراتی کمیشن کے قیام کا اعلان کیا ہے۔ اس کمیشن میں ایف آئی اے، ایف بی آر، آئی ایس آئی، ایس ای سی پی اور دیگر اداروں کے حکام شامل ہوں گے۔
کمیشن کس قانون کے تحت بنے گا؟
قانون دان اکرام چودھری نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں عموما انکوائری کمیشنز یا مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کا قیام انکوائری کمیشن ایکٹ 1956 کے تحت عمل میں لایا جاتا ہے لیکن ایسے کسی کمیشن کا نوٹیفیکیشن وزیراعظم جاری نہیں کر سکتا بلکہ کابینہ کی منظوری کے بعد حکومت پاکستان کسی بھی کمیشن کے قیام کا نوٹیفیکیشن جاری کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں احتساب کے ادارے موجود ہیں اور کام بھی کر رہے ہیں۔ اس لیے کسی نئے کمیشن کی گنجائش موجود نہیں۔

سابق وزیر قانون اور مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی محمود بشیر ورک نے اسی سوال کے جواب میں کہا کہ وہ اس حوالے سے کیا بتا سکتے ہیں کہ حکومت کون سا قانون لاگو کرے گی لیکن یہ ضرور ہے کہ عام حالات میں ایسا کوئی قانون موجود نہیں ہے اور نہ ہی ایسے کسی کمیشن کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت اپنی مرضی کے ادارے اور اپنی مرضی کے بندے لگانا چاہتی ہے۔ ’نہ پہلے اس قسم کی کوئی حکومت آئی اور نہ ہی کسی نے اپنی مرضی کے ادارے بنائے، جو ادارے پہلے موجود ہیں انھیں کام نہیں کرنے دیا جا رہا اور جو لوگ انصاف کرنے والے ہیں ان کو نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘
وزیراعظم کمیشن کے سربراہ ہوں گے؟
ماہر قانون اکرام چودھری نے کہا کہ اگر کوئی کمیشن بنتا ہے تو افریقی طرز کا ٹروتھ کمیشن نہیں ہوگا کہ جہاں سب ایک ساتھ بیٹھ کر سچ بولیں گے اور میثاق کرکے نئے سرے سے ملکی نظام کار چلانے لگ جائیں گے بلکہ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں نواز شریف، شہباز شریف اور آصف زرداری کا نام لے کر کہا کہ وہ کسی کو چھوڑیں گے نہیں جس کے بعد غیر جانبدار احتساب کے بنیادی تقاضے کی نفی ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’وزیراعظم کابینہ کے سربراہ ہیں اور ان کا کام پالیسی بنانا اور ملکی نظام چلانا ہے وہ قانون کے تحت تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ نہیں ہو سکتے۔‘
محمود بشیر ورک کا موقف تھا کہ احتساب اور انصاف کا بنیادی تقاضا غیر جانبداری ہے جس کی کسی سیاسی جماعت کے سربراہ سے اپنی مخالف سیاسی جماعت کیلیے توقع نہیں کی جا سکتی۔ یہ ون مین رول چاہتے ہیں جس کی کم از کم کسی مہذب معاشرے یا مغربی جمہوریت میں تو مثال موجود نہیں۔
