پاکستان کے ساحلی شہر کراچی کی بندرگاہ سے متصل گنجان آباد علاقے لیاری کے بیچوں بیچ واقع کچھی میمن قبرستان ایک احاطہ مخصوص مذہبی کمیونٹی کے لیے مختص ہے لیکن یہاں کئی دہائیوں سے کوئی تدفین کے لیے نہیں لایا گیا۔
کچھی میمن قبرستان کے بارے میں تو پورا کراچی جانتا ہے لیکن جس بات سے اس علاقے میں برسوں سے مقیم اکثر لوگ بھی واقف نہیں وہ یہ ہے کہ اس قبرستان کے اندر ایک احاطہ میں یہودیوں کی پرانی قبریں ہیں۔
قبرستان انتظامیہ اور گورکن کے مطابق یہ قبریں قیام پاکستان سے بھی پہلے کی ہیں اور گذشتہ کئی دہائیوں سے یہاں کوئی یہودی اپنے مردے دفنانے نہیں آیا۔
گورکن شعیب نے ’اردو نیوز‘ کو بتایا کہ ان کا خاندان پانچ پشتوں سے اس قبرستان کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔ اس قبرستان میں موجود یہودیوں کی قبریں اس کے دادا اور پردادا کے ہاتھوں کی بنی ہوئی ہیں۔
شہر کراچی میں یہودیوں کی موجودگی اوراس کی تاریخ میں ان کی شراکت داری کی یہ کوئی واحد نشانی نہیں۔ جدید کراچی کی تعمیر میں بھی یہودیوں کا حصہ ہے جس کی نشاندہی شہرکی بعض قدیم عمارتیں آج بھی کرتی ہیں۔
قیام پاکستان سے قبل کراچی میں یہودیوں کی ایک متحرک کمیونٹی آباد تھی جو شہرکی آبادکاری اور فلاح وبہبود میں حصہ لیتی تھی۔ سنہ 1948 میں اسرائیل کے قیام اور اس کے بعد شروع ہونے والی عرب اسرائیل جنگ کے نتیجے میں پروان چڑھنے والے یہودی مخالف جذبات کی وجہ سے کراچی سے یہودیوں نے نقل مکانی کی۔
ہجرت کرنے والے یہودیوں میں بیشتر وہ تھے جو یورپی ممالک سے تعلق رکھتے تھے اور اپنے حلیے اور شکل سے بآسانی پہچانے جاتے تھے۔ تاہم جب سنہ 1950 کی دہائی میں حکومت نے شہریوں کی شناخت کے لیے مذہب کو لازمی قرار دے دیا توباقی یہودی بھی ایک ایک کرکے ملک چھوڑنے لگے۔
جو بچے کھچے چند یہودی خاندان شہر میں رہ بھی گئے تھے، وہ ضیا دور میں مذہبی عدم برداشت کے باعث اپنی زندگیوں کو خطرہ محسوس کرنے لگے اور شہر سے کب گئے کسی کو کچھ پتا نہیں۔
شہر میں یہودیوں کے اور بھی قبرستان ہیں۔ کراچی کے قدیم میوا شاہ قبرستان میں میں بھی یہودیوں کی قبروں کا ایک احاطہ موجود ہے۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق سنہ 1980 کے بعد کسی بھی یہودی کو شہر کے کسی قبرستان میں نہیں دفنایا گیا۔ کچھ یہی اطلاع نادرا کے پاس بھی ہے جس کے ریکارڈ کے مطابق کسی یہودی کی شادی یا بچوں کی پیدائش کا اندراج نادرا ریکارڈ میں نہیں۔
ملک میں یہودیوں کی موجودگی کے حوالے سے سوال پر نادرا کے ترجمان فائق علی کا کہنا تھا کہ وہ سکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر یہ تعداد نہیں بتا سکتے تاہم انہوں نے اتنا ضرور کہا کہ 10 سال پہلے پورے ملک میں لگ بھگ چھ سے سات سو یہودی آباد تھے۔
فیصل خالد جنہوں نے چند سال پہلے بطور یہودی اپنا پاسپورٹ بنوایا، نے نادرا کے بتائے اعداد و شمار سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ نادرا جن یہودیوں کو پاکستان میں رہائش پذیر گردانتا ہے وہ سالوں پہلے یہاں سے نقل مکانی کر چکے اور ان میں سے بیشتر کا تو انتقال بھی ہو چکا ہے۔ ان کے بچوں کی اب پاکستان سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ اب پاکستان میں دو سو یہودی بھی موجود نہیںاوران میں سے بھی اکثر بیشتر وقت ملک سے باہر ہی ہوتے ہیں۔