حضور! میں عورت ہوں فیمنسٹ نہیں
کیسے یقین دلاؤں کہ میں آج کی عورت ہوں. میں اس زمانے کا صدیوں سے ظلم دیکھتی آئی ہوں لیکن میں عورت ہوں فیمنسٹ نہیں۔
حضور! اس معاشرے میں، میں نے عورت ہو کر بھی سب سے زیادہ عورت ہی کا حق چھینا ہے. عورت ہو کر عورت ہی پر تہمت لگائی ہے۔ مرد کو ہر حال میں اچھا ہی کہا ہے اور برائی ہمیشہ عورت کے ہی ذمے لگائی ہے۔ میں نے کبھی دوسری عورت کو عورت نہیں سمجھا اور اسی کے گھر میں آگ لگائی ہے۔ میں خاموشی سے عورت پر ظلم دیکھتی آئی۔
میں آخر میں عورت ہوں فیمنسٹ نہیں
جناب! عورت اس ملک میں ایک کٹھ پُتلی جیسی ہے۔ اک سجی سجائی بے زبان گڑیا ہے۔ ہم جس معاشرے میں جی رہے ہیں یہاں عورت کو ناچتے تو دیکھا جا سکتا ہے مگر وہ اگر بولے تو یہ برداشت نہیں کیا جاتا۔ عورت کو مرد کی بانہوں میں جھولتا تو دیکھ سکتے ہیں مگر پڑھتے اور ترقی کرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے۔ عورت کو پیدا کر سکتے ہیں مگر سنبھال نہیں سکتے.
یہ سب سمجھتی جا رہی ہوں۔ میں عورت ھوں فیمنسٹ نہیں ہوں۔

کم عمر لڑکیوں کی شادی کا بہت چرچا ہے آج کل، کہتے ہیں جو لڑکی ناک صاف نہ کر سکے اس کی شادی کروا دو! ارے بھئی لڑکی ہے کوئی لکڑی کی گڑیا تو نہیں کہ کسی کے بھی حوالے کر دو۔ کہیں اپنوں کے ہاتھوں لٹ جائے کہیں غیروں کے، کہتے ہیں مرد کبھی بوڑھا نہیں ہوتا۔ صحیح کہتے ہیں! لیکن یہ کیوں کہتے ہیں کہ بوڑھے مرد سے کمسن بچی کو بیاہ دو؟
کیا میں عورت ہوں یا میں فیمنسٹ ہوں؟
محترم! ذرا یہ تو بتائیں کہ یہ چو لہے عورت پر ہی کیوں پھٹتے ہیں؟ قتل کے بدلے میں عورت کو ہی کیوں خون بہا بنا دیتے ہیں؟ پنچایت کے فیصلوں میں یہ اونچے شملوں والےعورت ہی کیوں بانٹ دیتے ہیں؟ بیٹے کی پسند کی شادی میں بیٹی کو ہی کیوں زبردستی جہنم میں جھونک دیتے ہیں؟ نکاح کے مقدس نام پر عورت ہی کیوں بیچی جاتی ہے؟ بازار میں دام عورت کا ہی کیوں لگتا ہے؟ کہیں غیرت کے نام پر مار دی جاتی ہے تو کہیں روحانی کتاب سے اس کی شادی کروا دی جاتی ہے۔ وہ سب عورتیں ہی ہیں جنھیں اس معاشرے میں ونی کر دیا جاتا ہے،کیا کسی مرد کو کیا ہے؟









