Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
منگل ، 08 جولائی ، 2025 | Tuesday , July   08, 2025
منگل ، 08 جولائی ، 2025 | Tuesday , July   08, 2025

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی کہانی

اعظم خان .. اسلام آباد
پارلیمنٹ ہاوس جانے کے متعدد راستے سیکیورٹی وجوہ پر بند تھے۔ پیدل راستہ طے کرنا شروع کیا توسیکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات ہر طر ف نظر آئے۔ایسا محسوس ہورہا تھا کہ کسی جماعت یا گروپ نے پارلیمنٹ کے گھیراو کا اعلان کردیا ہو۔ پارلیمنٹ کے گیٹ کے سامنے ٹی وی چینلز کے کیمرے موجود تھے۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہندکے ساتھ کشیدہ صورتحال پر غور کے لئے طلب کیاگیا تھا۔
اس اجلاس کے مناظریکساں مختلف تھے۔ ہال سینیٹرزاور ایم این ایز سے کچھا کچھ بھرا ہوا تھا۔ سب خاموشی سے آکر اپنی نشست پر بیٹھے تو کچھ دیر بعدوزیراعظم عمران خان وزیروں اور مشیروںکے جھرمٹ میں اس ہال میں داخل ہوئے۔ ان کی آمد پر قومی ترانہ چلایا گیا۔ اپنی نشست پر بیٹھنے سے قبل احتراما کھڑے ہوگئے۔ترانے کے بعد ہال پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا۔ اسپیکر قومی اسمبلی اسدقیصرنے وزیراعظم کو خطاب کی دعوت دی تو یہ پہلاموقع تھا کہ کسی نے نئے وزیراعظم کی تقریرمیں خلل نہیں ڈالا۔ کوئی احتجاج ہوا نہ سیاسی نعرے لگے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے ایک پارٹی کے اراکین ہی ہال میں موجود ہوں جو پارٹی ڈسپلن کاخیا ل رکھنا اپنا فریضہ سمجھ رہے تھے۔ صحافیوں کی گیلری ہال کی طرح ہی کچھا کھچ بھری ہوئی تھی۔ اس گیلری میں بھی مکمل سکوت تھا۔ سب غورسے وزیر اعظم کی تقریر سن رہے تھے۔ مہمانوں کی گیلریز میں بھی رش زیادہ نہیں تھا۔ نعیم الحق، افتخار درانی اور شہزاد اکبر سمیت وزیراعظم کے دیگر مشیر اسپیکرکے دائیں جانب گیلری میں بیٹھ کر اس اجلاس کی کارروائی دیکھ رہے تھے۔ عمران خان کے بائیں جانب چیئرمین سینیٹ میر صادق سنجرانی ، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیرخزانہ اسد عمر اور وزیر دفاع پرویز خٹک بیٹھے تھے۔ وزیر اطلاعات فوادچوہدری وزیراعظم کی پچھلی صف میں اپنی نشست پر براجمان تھے۔ وزیراعظم کے خطاب دوران کیمروں نے مزیدقریب سے فوکس کرنا شروع کردیا تھا۔ پارلیمنٹ کے فوٹو گرافر نے بھی کا لی واسکوٹ اورشلوارقمیض میں ملبوس وزیراعظم کی ہر رخ سے تصاویر بنائیں۔ خواتین پارلیمنٹیرینز کی زیادہ تعداد ہا ل کے درمیان والی نشستوں پر براجمان تھی۔ سرخ لباس میں ملبوس واشنگٹن میں پاکستان کی سابقہ سفیر  شیری رحمان  پیپلز پارٹی کی نشستوں پر متحرک نظر آئیں۔ تھر سے پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر کرشنا کماری خواتین کے درمیان بیٹھ کر خاموشی سے یہ تقاریر سن رہی تھیں، تقاریر کے بعد وہ ساتھی اراکین کی نشستوں پر جاکر ان کی خیریت دریافت کرتی نظر آئیں۔
عمران خان کے لئے بھی یہ خوشگوار دن تھا۔ اپوزیشن جماعتوں کے ارکان بھی انہیں داد دے رہے تھے۔ وزیراعظم اپنی تقریر کرکے دوبارہ اپنی نشست پر بیٹھے تو چند لمحات کے بعد دوبارہ کھڑے ہوگئے اور ہندوستانی پائلٹ کی رہائی کی خوشخبری سنائی جس پر سب نے ڈیسک بجا کر ان کے اس اعلان کو سراہا۔ اس کے بعد قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے تقریر شروع کی۔ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی لباس کی چوائس ایک ہی تھی۔ عمران خان نے اگر کالے رنگ میں روا یتی لباس زیب تن کیا تو شہباز شریف بھی کالے رنگ کے لباس کا انتخاب کیا۔ اپوزیشن لیڈر کی تقریر کے دوران احتساب اور چور چورکے نعرے لگے نہ کسی نے خلل ڈالا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ان کی تقریر کے دوران متعدد مرتبہ وزیراعظم عمران خان نے ڈیسک بجا کر ان کے موقف کو سراہا۔ گیلری میں بیٹھی ایک خاتون صحافی نے ریمارکس د ئیے کہ شاید خوشی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شہباز شریف اپنی تقریر میں عمران خان کو پہلی مرتبہ وزیراعظم کہہ کر مخاطب کررہے تھے۔ شہباز شریف کی تقریر کے دوران اذان کا وقفہ ہوا تو انہوں نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو اشارہ کرکے اپنی طرف مشاورت کے لئے بلایا۔ عمران خان یہ سب مناظر غور سے دیکھ رہے تھے۔ اپوزیشن لیڈر نے حکومت سے تمام اختلافات ایک طرف رکھ کر ساتھ دینے کے اعلان پر وزیر اعظم نے ڈیسک بجا کر ان کا شکریہ ادا کیا۔ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی تقاریر کے بعد متعدد اراکین نے اپنی نشستوں سے اٹھ کرجانا شروع کردیا۔ اسپیکر بار بار ہاوس ان آرڈر کا اعلان کرتے رہے۔ حکومتی اراکین میں سے رمیش وانکوانی نے جاکر عمران خان سے ملاقات کی۔ سابق وزیرداخلہ رحمان ملک ہاتھ میں فائل تھامے ہال میں گھوم پھر رہے تھے، موقع پا کر انہوںنے بھی عمران خان کی نشست پر جاکر ان سے مصافحہ کیا۔ اب اسپیکر کے لئے ہاوس ان آرڈر رکھنا محال ہوچکا تھا۔ اراکین آپس میں ایسے گھلنا ملنا شروع ہوگئے جیسے عرصے بعد ان کی ملاقات ہورہی ہو۔
 

شیئر: