ایک لفظی فیصلے کے بعد کمرہ عدالت میں سکوت
اعظم خان ۔اسلام آباد
پیر کی صبح اسلام آباد ہائی کورٹ کی پارکنگ سے جب احاطہ عدالت میں داخل ہوا توغیر معمولی رش تھا۔ ہر طرف وکلا، نون لیگی کارکنان اور میڈیا نمائندوں کی بڑی تعداد موجود تھی جو فیصلے سے متعلق چہ مہ گوئیاں کر رہے تھے۔
ان صفوں سے ہوتا ہوا جب میں ایک گھنٹہ قبل ہی کمرہ عدالت میں داخل ہوا تو یہ پہلے ہی سے کچھا کھچ بھرا ہوا تھا۔ یہ ایک کشادہ ہال ہے، جس میں75 کے قریب کرسیاں لگائی گئی تھیں جو مکمل بھر چکی تھیں۔پہلی نشست پر نوازشریف کے وکلا عدالتی گاؤن پہنے بڑے پراعتماد انداز میں براجمان تھے۔
نیب کی طرف سے کوئی نظر نہیں آرہا تھا، جیسے انہیں کچھ اچھے کی امید ہی نہ ہو۔ اتنے میں کمرہ عدالت میں نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث ایک جج کے روپ میں گاؤن پہنے داخل ہوئے تو ایک بار پھر ضمانت سے متعلق چہ مہ گوئیاں شروع ہوگئیں۔ پانامہ کیس میں دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی سخت فیصلہ آنے کا امکان ہوتا ہے تو خواجہ حارث اپنے جونیئرز کو عدالت بھیج دیتے ہیں جبکہ نیب کے تمام پراسیکیوٹرز اگلی نشستوں کو سبنھال لیتے لیکن آج معاملہ مختلف تھا۔
عدالت میں پچھلی نشستوں پر براجمان افراد میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سینیٹر راجہ ظفرالحق ، سابق وزیرخارجہ خواجہ آصف، مریم اورنگزیب، سینیٹر مشاہداللہ خان اور دیگر مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والے رہنما موجود تھے، جن کو بیٹھنے کی جگہ نہ ملی وہ جہاں جگہ ملی کھڑے ہوگئے۔
عدالت میں صحافیوں کی بڑی تعداد ججز کے روسٹرم کے دائیں اور بائیں جانب موجود تھی، جن کے ہاتھ میں موبائل فون اس طرح تھامے ہوئے تھے کہ جیسے ہی فیصلہ سنایا جائے تو وہ اپنے ٹی وی چینلز کو بریکنگ خبر دے سکیں۔فیصلےسے قبل چند لیگی کارکنان نے اپنے موبائل فون سے کمرہ عدالت کے مناظر کی ویڈیو بنائی تو ایسے میں وہاں پر موجود عدالتی اہلکاروں آگے بڑھے اور ان سےموبائل لے کر وڈیوز ڈیلیٹ کردیں۔
کچھ اہلکار سینیئر رہنماؤں اور صحافیوں سے یہ کہتے بھی نظر آئے کہ پلیز موبائل فون کا استعمال نہ کریں، یہ ہماری نوکری کا سوال ہے۔ کمرہ عدالت میں سب آپس میں گپ شپ کررہے تھے کہ جیسے کسی حجرے میں موجود ہوں۔ ایسے میں عدالتی اہلکاروں نے ججز کی کرسیوں کو درست پوزیشن میں لگاناشروع کردیا، میز پر کاپی پنسل کی پوزیشن بھی درست کردی گئی، جس کا صاف مطلب یہ تھا کہ ججز اپنے چیمبر سے کمرہ عدالت آنے والے ہیں اور پھر ایسا ہی ہوا۔
کچھ لمحات کے بعد جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی سیاہ گاون پہنے کمرہ عدالت میں داخل ہوئے۔ کمرہ عدالت میں پہلے جونیئر جج جسٹس محسن اختر کیانی داخل ہوئے ۔ دونوں ججز کے آتے ہی کھچاکھچ بھرے کمرہ عدالت میں مکمل سکوت طاری ہوگیا۔ ججز ابھی مکمل اپنی نشستوں پر بیٹھے ہی نہیں تھے کہ جسٹس عامر فاروق نے مختصر فیصلہ سنانے کے ساتھ ہی صرف ایک لفظ’ ’ڈسمسڈ‘‘ کہا اور ججز فوری طور پر واپس چیمبر چلے گئے لیکن کمرہ عدالت میں موجود وکلاء، لیگی رہنماؤں اور کارکنان نے ایسی چپ سادھ لی جیسے سب پر سکتہ طاری ہوگیا ہو۔
میڈیا کے نمائندوں نے بریکنگ خبر دینے کے لیے جلدی کی تو ان رش سے ہوتے ہوئے باہر جانےمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اکثر میڈیا کے نمائندوں نے کمرہ عدالت سے موبائل فون پر اپنے اپنے نیوز ڈیسک پر خبر دینا شروع کردی۔ کچھ لمحات کے بعد لیگی کارکنان باہر نکلے اور فیصلے کے خلاف نعرہ بازی بھی کی۔
اس کے بعد چند لیگی رہنماؤں نے میڈیا سے بات کی اور فیصلے پر اپنے ردعمل سے آگاہ کیا۔ سینیٹر مشاہداللہ خان کا کہنا تھا کہ اب سپریم کورٹ جانے کا رستہ باقی بچا ہے، جس پر ضرور غور کرنا چاہیے۔ خواجہ آصف ، شاہد خاقان عباسی کو اپنے حصار میں لیے ہجوم سے باہرنکالتے نظرآئے تو وہیں پر کچھ میڈیا نمائندوں نے سوشل میڈیا پر فیصلے سے متعلق لائیو کمنٹری شروع کردی۔