Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
جمعرات ، 19 جون ، 2025 | Thursday , June   19, 2025
جمعرات ، 19 جون ، 2025 | Thursday , June   19, 2025

کیا دہشتگردی کے خلاف جنگ ختم ہوگئی؟

عبداللہ بن بخیت۔ الریاض
کم از کم سعودی عر ب کی سطح پر یہ بات بلا خوف و تردید کہی جاسکتی ہے کہ دہشتگردی کا زور کم ہوا ہے۔ سعودی سیکیورٹی فورس کے قبل از وقت عسکری آپریشنوں نے دہشتگردوں کے حوصلے توڑ ڈالے۔ ان میں مایوسی کی لہر دوڑا دی۔ اسکا مطلب یہ نہیں کہ دہشتگردی کا صفایا ہوچکا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ پیشہ ور بڑی دہشتگرد تنظیموں کا خاتمہ ہوا اور جنونی دہشتگردی کا رواج ڈھیلا پڑ گیا ہے۔ نوجوانوں کو گدگدانے والادہشتگردی کا مشن کمزور ہوگیا ہے۔
سعودی حکومت نے پیشہ ور دہشتگردوں کے خاتمے کے بعد العوامیہ کی تعمیر نو کرکے جو تصاویر جاری کی ہیںا نہیں دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ سعودی حکومت نے سرگرم دہشتگردوںکو ناکوں چنے چبوانے کیلئے اسلحہ سے کام لیا۔ اسی کے ساتھ ساتھ سعودی عرب نے العوامیہ کے اس علاقے کو جسے دہشتگرد اپنے اڈے کے طور پر استعمال کررہے تھے ،جدید خطوط پر استوار کرنے کا منصوبہ بنایا۔ آج العوامیہ کا یہ علاقہ تہذیب و تمدن اور تعمیر نو کے عزم کا آئینہ دار بن گیا ہے۔ دہشتگردی مختلف پرتوں میں ہوتی ہے۔اس کے مختلف طبقے اور مختلف منزلیں ہیں۔ ہر ایک دوسرے پر سوار ہوکر اپنا کردارادا کرتا ہے۔ ہر طبقہ دوسرے طبقے کو سہارا دیتا ہے۔ دہشتگردی کا انسداد اور انصاف کا ہاتھ نچلے طبقوں تک نہیں پہنچ سکتا۔ دہشتگرد اور اسے تحفظ فراہم کرنے والے کے درمیان بہت سارے پیچیدہ اور مشترکہ امور ہوتے ہیں۔ تحفظ فراہم کرنے والا اپنے علم ، اپنی عمر اور معاشرے کے ماحول کے لحاظ سے اپنا کردارادا کرتا ہے۔ 
العوامیہ محلے کو دہشتگردوں نے تہس نہس کردیا تھا۔ اسکی تعمیر نو دہشتگردی اورشدت پسندی کے انسداد کا عملی نمونہ ہے۔ عام طور پر دہشتگردوں کے حلقوں میں ایسے لوگ شامل نہیں ہوتے جو پرامید ہوتے ہیں، جو ریاستی اداروں کے ممنون ہوتے ہیں۔ شدت پسندی کی جڑیں منحرف دینی ترغیب اور لوگوں کے ذہنوں میں مظلومیت کے جذبے کی ترویج سے ملتی ہیں۔ اگر کسی انسان کے اطراف ایسے مذہبی رہنما جمع ہوجائیں جو مذہب یا مسلک یا فرقے کے عنوان سے اس میں مایوسی بھر رہے ہوں تو اس سے دہشتگردی کی آبیاری ہوتی ہے۔ ایسا شخص یا تو آگے بڑھ کر دہشتگرد بن جاتا ہے یا وہ دوسروں کو دہشتگرد بنانے کیلئے پل کے طور پر استعمال ہونے لگتا ہے۔ عام شہری دیکھتے ہی دیکھتے دہشتگرد وں کے زمرے میں شامل ہوجاتا ہے۔ اس کے پیش نظر کوئی مہم جوئی ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی لطف اٹھانے والا جذبہ کار فرما ہوتا ہے۔ وہ تو مایوسی کے باعث جاںنثاری کے جذبے سے دہشتگرد بن جاتا ہے۔ 
دہشتگردی کے خلاف جنگ درحقیقت مایوسی کے خلاف جنگ ہے۔ ترقی جتنی زیادہ ہوگی، بامقصد کام جتنے زیادہ نظر آئیں گے انصاف کا احساس جتنا زیادہ بڑھے گا، خوشی اور موج مستی کے امکانات جتنے زیادہ ہونگے اتنا ہی زیادہ زندگی دہشتگردی کے خلاف جنگ کی محرک بنے گی۔ پرامید انسان کبھی بھی اپنی زندگی کو داﺅ پر نہیں لگاتے۔ امید انسان کو دہشتگردی کے خلاف اکساتی ہے دہشتگردی کی طرف نہیں لیجاتی۔ العوامیہ میں رہائش ، تفریح، علوم و معارف ، تعلیم و صحت کے منصوبے امید کی وہ شمعیں ہیں جو دہشتگردی کے خلاف عوام کو اکسا رہی ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: