سیاست کوئی اور رخ اختیار کرے گی؟
کراچی ( صلاح الدین حیدر) سوال جتنا ٹیڑھا ہے۔جواب اتنا ہی مشکل، گزشتہ روز کچھ ایسے واقعات ظہور پذیر ہوئے جس سے حالات میں بظاہر تو تبدیلی نظر آتی ہے پھر بھی کوئی نتیجہ نکالنا فی الحال آسان نہیں۔
عمران کو بین الاقوامی سطح پر تو کامیابی حاصل ہوئی، مثلاً سعودی عرب کی طرح متحدہ عرب امارات نے بھی پاکستان کو 3.2 ارب ڈالردینے کا اعلان کیا۔ مزید 3 ارب ڈالر کا تیل بعداز فروخت قیمت ادا کرنے کی حامی بھری۔ دونوں ہی برادر اسلامی ملک پاکستان کی بروقت امداد پر تیار ہوگئے۔ ترکی نے پاکستان کو میزائل سسٹم دینے پر آمادگی ظاہر کردی ۔ یہ تمام اعلانات وزیراعظم کیلئے اطمینان کا باعث ہے۔ خارجہ پالیسی کی کامیابی میں جہاں انہیں خوشی حاصل ہوئی ہے وہیں اندرون خانہ مسائل کا سامنا مشکل سے مشکل ترین ہوتا جارہا ہے۔
پٹرول کی قیمتیں کم کر کے حکومت وقت نے اطمینان کا سانس تو ضرور لیا ہوگا لیکن مسائل ہیں کہ رکنے میں ہی نہیں آتے۔ ایک کے بعد ایک، کہاں تک ایک بیچارا شخص ان کو حل کرے گا۔ اپنے 2 وزراءبابر اعوان اور اعظم سواتی کو نیب کے الزام کے بعد مستعفی کرنا پڑا۔ اب ایک نیا جھگڑا شروع ہوگیا ۔ تجارت اور معیشت کے مشیر رزاق داود کے بارے میں شورو غوغا ہے کہ انہیں مہمند ڈیم کی تعمیر کا ٹینڈر دے دیا گیا جو کہ اصولوں کے خلاف ہے۔ 2 وزرائ، فواد چوہدری اور فیصل واڈوا نے وضاحت تو دی کہ مشیر تجارت کی کمپنی ڈیسکون کو ٹھیکہ حکومت کے برسراقتدار آنے سے پہلے ہی دے دیا گیا تھا۔ پھر رزاق داود نے سرکاری عہدہ سنبھالنے سے پہلے ہی کمپنی سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ حکومت کے وزراءاور ترجمان وضاحتیں دیتے دیتے تھک گئے اپوزیشن ہے کہ ماننے پر تیار ہی نہیں۔ خورشید شاہ، شاہد خاقان عباسی اور کئی ایک دوسرے نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے ذمے داران یہی رٹ لگائے ہوئے کہ رزاق داﺅد کو ٹھیکے سے علیحدگی اختیار کرنی چاہیے یا پھر عہدے سے مستعفی ہوجانا چاہیے۔ معاملہ اس قدر طول پکڑ گیا کہ اب عمران کو یا تو اپنے وزراءکی حمایت میں بلا خوف و خطر ڈٹ جانا چاہیے یا پھر اپوزیشن کے سامنے ہتھیار ڈال دینے سے جو سبکی ہوگی اس کیلئے تیار رہنا پڑے گا۔ پی ٹی آئی کے مخالفین اس بات کو سرے سے نظر انداز کردیتے ہیں کہ شاہد خاقان عباسی وزیر اور بعد میں وزیراعظم رہے لیکن ان کی ایئر لائن ایئر بلیو کے بارے میں کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ خود ان کی پارٹی سے کوئی آواز نہیں اٹھی۔ اب اپوزیشن یہ سب کچھ بھول گئی کہ خود ان کی کارکردگی کہاں تک اصولوں پر متعین تھی۔ دوسروں پر تنقید تو بہت آسان ہے لیکن اپنے واسطے دوسرے اصول ہوتے ہیں۔ یہ بدقسمتی سے پاکستان میں پرانی روایت ہے۔
اس سے بھی زیادہ اہم ترین جو وضاحت طلب ہے وہ ہے چیف جسٹس کے تازہ ترین اعلانات جہاں انہوں نے ریٹائرمنٹ سے چند روز پہلے آصف زرداری اور جنرل پرویز مشرف کے خلاف تمام این آر او کیس ختم کرنے اور نیب کے چیئرمین جسٹس جاوید اقبال جو خود سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج ہیں کو جھاڑ پلادی کہ نیب جب چاہے جس کی چاہے پگڑی اچھال دیتا ہے۔لاہور میں ایک خاتون ہیں جو دوسروں کو نیب کے ذریعے بلیک کرتی ہیں، کوئی نوٹس نہیں لیتا۔ چیف جسٹس نے اپنے پہلے موقف سے بھی دستبرداری کا اعلان کردیا۔ انہوں نے جہاں اٹھارویں آئینی ترمیم کی تشریح کی ضرورت پر یہ کہہ کر زور دیا تھا کہ اس پر سیر حاصل بحث نہیں ہوئی، اس لئے اس پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ کسی نے ان کے جملوں پر اعتراض نہیں کیا۔ واحد آواز ان کے خلاف پیپلز پارٹی کے لیڈر خورشید شاہ کی طرف سے سنائی دی کہ اب اس ترمیم پر مزید بحث نہیں کی جاسکتی۔ 24 گھنٹے کے بعد چیف جسٹس نے اپنا اعلان واپس لے لیا۔ سمجھ میں نہیں آتا کیوں؟ این آر او کے بارے میں انہوں نے کیس یہ کہہ کر کہ ختم کردیا کہ زرداری اور مشرف اور سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم نے اپنے جوابات داخل کردیئے اب قانون اپنا راستہ خود اختیار کرے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کیس بند ہوگیا یا پھر آنے والے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اسے دوبارہ کھولیں گے۔ فی الوقت تو زرداری اور مشرف کے سر سے خطرہ ٹل گیا لیکن آگے کیا ہوتا ہے یہ دیکھنا باقی ہے۔ ان تمام واقعات اور اعلانات کو دیکھنے کے بعد نتیجہ یہی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ شاید سیاست کوئی اور رخ اختیار کرنے والی ہے۔